بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی تعمیر کے وقت مکمل طور پر سمت قبلہ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے


سوال

 ہم نے بیچ آبادی کے ایک گھر مسجد  کی تعمیر کی نیت سے خریدا ہے، گھر کی زمین پر مسجد اگر مغرب کی سمت کے اعتبار سے تعمیر کی جائے، تو بالکل سیدھی اور کشادہ بنے، لیکن موجودہ جدید آلات کمپاس وغیرہ سے قبلہ کی  سمت کے لحاظ سے قدرے ہٹ کر ہے  پلاٹ کی شکل، کیا ہم صرف جہت مغرب کے اعتبار سے مسجد بنا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نئی مساجد کی تعمیر  کے لیے ضروری ہے کہ ان کی  سمت ِ قبلہ کا لحاظ رکھا جائے اور اس میں  مساجد ِ قدیمہ کی اتباع کی جائے ، اور اگر کسی جگہ پرانی مساجد نہ ہوں تو وہاں قواعدِ  ریاضیہ سے مدد حاصل کی جائے،لہذاصورتِ  مسئولہ  میں مسجد  کی تعمیر کے  وقت اس کے قبلہ کی سمت صحیح  رُخ  پر  ( پرانی مساجد کے رخ پر اور اگر وہ  نہ ہوں تو قواعد ریاضیہ کے مطابق) کرنا ضروری ہے ، فقہاءِ  کرام نے جو  ۴۵ درجہ سے کم انحراف سے اداء ِ صلوٰۃ  کا حکم  لکھا ہے وہ اس صورت میں ہے جب غلط  رخ پر نماز  پڑھ  لی جائے   یا ان مساجد ِ قدیمہ کے لیے ہے جو  پہلے ہی سےکچھ درجہ  انحراف کے ساتھ تعمیر ہوں ، لیکن نئی مسجد کی تعمیر کے وقت قصداً  قبلہ  سےانحراف کی فقہاءِ  کرام نے اجازت نہیں دی ہے ۔

اگر مذکورہ  پلاٹ کی  ہیئت اس طور پر ہے  کہ  اس میں قبلے  کے رخ تعمیر نہیں ہو سکتی  تو  مزید جگہ خرید لی جائے  یا جو جگہ ہے اس میں سے جتنے حصہ پر قبلہ رخ تعمیر ممکن ہے اتنے  حصہ پر مسجد بنالی جائے اور بقیہ حصہ کو مسجد کی دیگر ضروریات میں  استعمال کرلیا جائے۔

وفي القرآن المجيد:

{فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَه} [البقرة: 144]

وفي العناية شرح الهداية :

(ويستقبل القبلة) لقوله تعالى {فولوا وجوهكم شطره} [البقرة: 144] ثم من كان بمكة ففرضه إصابة عينها، ومن كان غائباالعناية ففرضه إصابة جهتها هو الصحيح لأن التكليف بحسب الوسع.(1/ 269ط: دار الفكر)

امداد الفتاوی میں ہے :

’’سوال: ہمارے یہاں گورنمنٹ نے ایک احاطہ مسجدکے  لیے وقف کیاتھا جو قبلہ رونہیں ؛  لیکن اس میں ربع دائرہ سے بہت کم یعنی بقدر:۶؍۱حصہ دائرہ کے فرق ہوسکتاہے۔ کیاوہاں مسجدبنادی جائے؛ کیوں کہ قبلہ روکرنے میں چاروں طرف سے ٹکڑے کاٹ دینے سے رقبہ آدھارہ جاتاہے، اگراس طرح مسجد بنانے میں اعتراض نہ ہو تومسجدبہت کشادہ ہوسکتی ہے۔ اورضرورت کی سب چیزیں بن سکتی ہیں ؟

جواب : اوپرکی گنجائش بنی ہوئی مساجدکے لیے مذکورہوئی ہے؛ تاکہ جمہورمسلمین کاتخطیہ لازم نہ آئے، لیکن قصدًا مسجدمنحرف بناناجس میں مفسدہ مذکورہ یعنی تخطیہ سے زیادہ مفاسدہیں ۔ جیسے ’’افتراق بین المسلمین و اطالت لسان معترضین وجسارت عوام علی الخروج عن الحدود واستخفاف حدود وأمثالہا‘‘ خلافِ مصلحت ہے۔ نظیرہ: مامرمن عدم اعتبار النجوم في المساجد القدیمة، وفي اعتبارها في المفاوز(۱).  ان  مفاسدکے مقابلہ میں رقبہ کاکم ہوجانا اَہون ہے۔ یہ میری رائے ہے، بہترہوکہ دوسرے حضرات اہلِ  علم سے بھی مشورہ کرلیاجاوے۔‘‘ 

(۱/ ۱۴۴ ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

کفایت المفتی میں ہے :

’’سوال : ایک مسجد  کی بنیاد تھوڑی سی   ٹیڑھی  رکھی گئی اور عمارت بلند ہو چکی ہے ،زمیندار غریب آدمی ہے ، اس کی عمارت  پر چھت ڈال دی جائے یا نہیں ؟

جواب: بہتر تو یہی ہے کہ مسجد کو قبلہ کی سمت کے موافق کر لیا جائے پھر چھت ڈالی جائے،  لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو اور چھت ڈال لی جائے  تو مسجد میں صفیں قبلہ رخ کھڑی ہوا کریں نماز ہو جائے گی ۔‘‘

(۳/ ۱۷۶ ط:مکتبہ فاروقیہ )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144208201378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں