زید نے اپنے گاؤں میں مسجد کی تعمیر کے لیے بکر کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ بکر زید کو مبلغ 5 لاکھ روپے بغرض تعمیر مسجد دیں گے، لیکن پہلے زید اپنی مسجد کی بنیادیں کھڑی کرے گا ،جس کے بعد بکر 5 لاکھ روپیہ دے گا، باقی خرچ زید پر ہوگا، تعمیر کے بعد بکر اپنے ٹرسٹ کی تختی نصب کرے گا ،جس پر مسجد مذکورہ بالا کی بنیادی کام شروع کروا دیا ،بنیادیں تعمیر ہونے کے بعد زید نے بکر سے رابطہ کیا اور پیسے کا مطالبہ کیا، جس پر بکر نے تقریباً چار پانچ قسطوں میں رقم مبلغ ایک لاکھ انیس ہزار ادا کر دیے، مذکورہ بالا رقم زید نے اینٹوں، مزدوری اور دیگر سامان میں خرچ کر دی، مذکورہ بالا رقم وعدہ کے مطابق نہ ملنے کی وجہ سے زید نے بکر کے وعدے کے مطابق ادھار پر لیے ہوئے سامان کی ادائیگی وقت پر نہ کی ،تو بھٹہ خشت کے مالک سے زید کی تلخ کلامی ہوئی، جسکی وجہ سے کمیٹی مسجد نے فیصلہ کیا کہ کوئی رقم مزید نہ لی جائے، اگر اللہ تعالیٰ چاہیں گے تو بن جائے گی، جس پر مابین فریقین رابطہ نہ رہا، اسی دوران ایک مخیر آدمی صحیح العقیدہ آیا اور اس نے مسجد کے بنانے کی ذمہ داری لے لی اور اس نے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا کرتے ہوئے مسجد مذکورہ بالا مکمل تعمیر کر دی اور بکر کا دیا ہوا 1 لاکھ انیس ہزار روپے بھی سامان اور مزدوری کی مد میں استعمال ہو چکا، اب بکر کے ایجنٹ نے زید سے مطالبہ کیا کہ ہماری مبلغ ایک لاکھ انیس ہزار واپس کی جائے، کیا یہ رقم جوکہ مسجد کی تعمیر میں استعمال ہو چکی ہے شرعی طور پر قابل واپسی ہے یا وقف ہونے کی حیثیت سے ناقابل واپسی ہے؟
صورت مسؤلہ میں بکر نے119000 روپے مسجد کی تعمیر کے لیے دیے تھے ،لہذا یہ رقم مسجد کے لیے وقف ہوگئی تھی ،اب بکر کا اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرعا درست نہیں ہے ۔
وفي الدر المختار :
"(فإذا تم ولزملا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)."
(كتاب الوقف ,رد المحتار4/ 351ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144401100855
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن