بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی شرعی حدود میں معتکفین کے لیے پکے غسل خانے بنانا


سوال

معتکفین کے لیے انتہائی گرمی کی وجہ سے غسل کے لیے مسجد کے اندر سمینٹ کے پکے غسل خانے بنانا جائز ہے یا نہیں،جس کا پائپ وغیرہ باہر کی طرف ہو اور پانی مسجد میں نہ گرتا ہو اور نیز اگر بنانا جائز نہیں تو پھر معتکف کے غسل کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟

جواب

معتکفین کی ضرورت عارضی ہے  اس لیےمسجد کی شرعی حدود میں  پکے غسل خانے بنانے کی ضرورت نہیں هے ،اس لیے اجتناب کیا جائے،البتہ عارضی پورٹ ایبل غسل خانے بنانا( تاکہ معتکفین کی ضرورت پوری ہونے کے بعد اس کو ہٹا دیاجائے)جو مسجد کی شرعی حدودمیں ہو اور اس کا پانی مسجد میں نہ گرتاہو  تو اس میں معتکف غسل  کرسکتا ہے،  لیکن شدید ضرورت کے بغیر اس کے بھی  استعمال کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔ اور جہاں مسجد کے آداب اور تقدس کے پامال ہونے کا اندیشہ ہو  وہاں پورٹ ایبل واش روم سے بھی اجتناب کیا جائے۔

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وإن ‌غسل ‌المعتكف رأسه في المسجد فلا بأس به إذا لم يلوث بالماء المستعمل فإن كان بحيث يتلوث المسجد يمنع منه؛ لأن تنظيف المسجد واجب، ولو توضأ في المسجد في إناء فهو على هذا التفصيل. اهـ.

بخلاف غير المعتكف فإنه يكره له التوضؤ في المسجد، ولو في إناء إلا أن يكون موضعا اتخذ لذلك لا يصلى فيه وفي فتح القدير خصال لا تنبغي في المسجد «لا يتخذ طريقا ولا يشهر فيه سلاح ولا ينبض فيه بقوس ولا ينثر فيه نبل ولا يمر فيه بلحم نيء ولا يضرب فيه حد ولا يتخذ سوقا رواه» ابن ماجه في سننه عنه - عليه السلام -"

( باب الإعتكاف،ج2،ص327، دار الكتاب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں