بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی رقم سے مدرسے کا بِل ادا کرنا


سوال

ہماری مسجد میں دو مدرسے ہیں، ایک بنین کا دوسرا بنات کا، بنین کا مدرسہ مسجد کی پہلی منزل پر لگتا ہے اور بنات کا مدرسہ مسجد کے بیسمنٹ میں لگتا ہے، ان دونوں مدرسوں کی انتظامیہ الگ ہے جوکہ مدرسہ کی ضروریات یعنی اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات اٹھاتے ہیں لیکن دونوں مدرسوں کے بجلی کے بِل مسجد کے پیسوں سے ادا کیے جاتے ہیں، کیا مسجد کے پیسوں سے مدرسے کا بِل ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟

(وضاحت) بیسمنٹ مسجد کی ضروریات کے لیے تعمیر کیا گیا تھا، بعد میں یہاں بنات کا مدرسہ شروع کیا گیا جوکہ اسی بیسمنٹ کے ہال میں لگتا ہے۔

جواب

مسجد و مدرسے کی انتظامیہ الگ الگ ہونے کے ساتھ اگر مسجد و مدرسے کا چندہ بھی الگ الگ کیا جاتا ہو تو اس صورت میں مسجد کے پیسوں سے مدرسے کا بِل ادا کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر مسجد و مدرسے کا چندہ ایک ساتھ کیا جاتا ہو یعنی چندہ دینے والوں کو معلوم ہو کہ یہ پیسہ مسجد و مدرسہ  دونوں جگہ خرچ کیاجائے گا تو اس صورت میں مسجد کے پیسوں سے مدرسے کا بِل ادا کرنا جائز ہوگا۔

نیز چونکہ مسجد کا بیسمنٹ مسجد کے ہی حکم میں ہے، اس لیے اس میں بنات کا مدرسہ قائم کرنے میں یہ قباحت ہے کہ اس میں حیض والی خواتین اور بچیوں کی آمد و رفت بھی ہوگی جبکہ اس حالت میں  خواتین کا مسجد میں داخل ہونا شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا بنات کا مدرسہ مسجد کی حدود سے باہر منتقل کیا جائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى. اهـ."

( کتاب الوقف ، مطلب في نقل انقاض المسجد ونحوہ، ج: 4، ص: 361 ، سعید)

وفیہ ایضا:

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا."

(کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین۔۔۔( ج: 4 ، ص : 445 ، سعید)

البحر الرائق  میں ہے:

"وقد علم منه أنه لا يجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر."

(كتاب الوقف، وقف المسجد أيجوز أن يبنى من غلته منارة، ج: 5 ، ص : 234 ، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں