بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی قبلہ والی دیوار پر خانہ کعبہ کی شبیہ بنانے اور اس میں فوت شدہ بادشاہ کا نام لکھنے کا حکم


سوال

اسلام آباد کی ایک مسجد  کی تعمیر کے دوران کعبہ کے دروازہ والی چادرکے عکس کو عین منبر کے پیچھے بنایا گیا ہے،شاید ثواب کی نیت سے،ساتھ ہی جس طرح کعبہ کے غلاف میں سعودی بادشاہ کا نام لکھا ہوا ہوتا ہےعین امام کی سجدہ گاہ کے سامنے ایک فوت شدہ سعودی بادشاہ کا نام بھی ثبت کر دیا گیا، اگر دور سے کھڑےہوکر دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ خطیب اور مقتدی سب اس نام کو سجدہ کر رہے ہیں ۔

آپ سے استدعاء ہے کہ اس نکتہ کی وضاحت کی جائے کہ کیا کعبہ کے دروازہ کی  مشابہت والے عکس کو نماز میں اپنے سامنے رکھا جاسکتا ہے ؟ چاہے وہ عقیدت کی وجہ سے یا ثواب کی نیت سے؟ کیا ایک فوت شدہ سعودی بادشاہ کے نام کو سامنے لکھ کر سجدہ کیا جاسکتا ہے؟ اور وجہ یہ بتائی جاۓ کہ جب مکہ میں سجدہ ہوسکتا ہے تو یہاں بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،اس سعودی بادشاہ کومرے ہوۓ سترہ سال ہو چکے ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں قبلہ کی دیوار یا محراب پر نقش و نگار کرنا جس سے نماز ی کے خشوع و خضوع میں خلل پیدا ہو مکروہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مسجد میں قبلہ کی دیوار پر خانۂ  کعبہ کے دروازہ کا عکس بنانے سے بھی چوں کہ نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہونے کا قوی اندیشہ ہے اس لیے یہ بھی کراہت میں داخل ہے،اس کے علاوہ قبلہ والی دیوار پر لکھائی میں یہ خرابی بھی ہے کہ اگر نمازی نماز کے دوران اپنے قصد وارادہ سے الفاظ ادا کیے بغیر دل میں لکھی ہوئی چیز پڑھے تو اس سے اس کی  نماز مکروہ ہو جائےگی اور اگر اس نے زبان سے لکھے ہوئے الفاظ کو ادا بھی کر دیا تو اس کی نماز ہی فاسد ہو جائے گی۔

البتہ کعبہ کے دروازہ کے عکس میں  فوت شدہ بادشاہ کے نام لکھا ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام یا خطیب اس نام کو سجدہ کر رہا ہے اور نہ ہی یہاں سجدہ کرنے کو عرف میں  بادشاہ کے نام کو سجدہ کرنا سمجھا جاتا ہے۔

لیکن مذکورہ بالا خرابیوں کی وجہ سے مسجد کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ مسجد کے محراب کے پاس سے کعبہ کے دروازہ کے عکس کو  ہٹا دیں۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(ولا بأس بنقشه خلا محرابه) فإنه يكره لأنه يلهي المصلي. ويكره التكلف بدقائق النقوش ونحوها خصوصا في جدار القبلة قاله الحلبي. وفي حظر المجتبى: وقيل يكره في المحراب دون السقف والمؤخر انتهى. وظاهره أن المراد بالمحراب جدار القبلة فليحفظ".

وفي الشامية:

"(قوله ولا بأس إلخ) في هذا التعبير كما قال شمس الأئمة: إشارة إلى أنه لا يؤجر، ويكفيه أن ينجو رأسا برأس. اهـ

(قوله لأنه يلهي المصلي) أي فيخل بخشوعه من النظر إلى موضع سجوده ونحوه".

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، مطلب: كلمة "لا بأس" دليل على أن المستحب غيره لأن البأس الشدة، 1/ 658، ط: سعید)

وفي الدر أيضاً :

"(ولا يفسدها نظره إلى مكتوب وفهمه) ولو مستفهما وإن كره".

وقال ابن عابدين :

"(قوله ولو مستفهما) أشار به إلى نفي ما قيل إنه لو مستفهما تفسد عند محمد. قال في البحر: والصحيح عدمه اتفاقا لعدم الفعل منه ولشبهة الاختلاف. قالوا: ينبغي للفقيه أن لا يضع جزء تعليقه بين يديه في الصلاة لأنه ربما يقع بصره على ما فيه فيفهمه فيدخل فيه شبهة الاختلاف اهـ أي لو تعمده لأنه محل الاختلاف (قوله وإن كره) أي لاشتغاله بما ليس من أعمال الصلاة، وأما لو وقع عليه نظره بلا قصد وفهمه فلا يكره ط".

(1/ 634، أيضاً)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وكره بعض مشايخنا النقوش على المحراب وحائط القبلة؛ لأن ذلك يشغل قلب المصلي، وذكر الفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - في شرح السير الكبير أن نقش الحيطان مكروه قل ذلك أو كثر".

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن5/ 319، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں