بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر مصلی والی جگہ مسجد شرعی ہو اور باقی حصہ مصلی ہو تو معتکف مصلی والی جگہ پر نہیں جا سکتا


سوال

ایک پلازہ والوں نےمل کرگراؤ نڈ فلور کے دو فلیٹ خریدےمسجد کی نیت سے اور مسجد بن گئی۔مسجد کے اوپر فلیٹوں میں لوگوں کی رہائش گاہ ہے۔مسجد سے آگے محراب والی جگہ تقریباً چھ فٹ ہےجورہائش سے ہٹ کر ہے اس کے اوپر کوئی عمارت نہیں بنی ہوئی اورنیچے بھی کچھ نہیں ہے۔اور محراب والی جگہ مسجد کی نیت سے تعمیر کی گئی ہےاور اس جگہ کو   وقف کر دیا گیا ہے۔آیا یہ شرعی مسجد کہلائی گی یا صرف محراب والی جگہ مسجد کہلائی گی ؟کیااس مسجد میں جمعہ کی نماز ہوسکتی ہے؟ اسی طرح رمضان المبارک میں مسنون اعتکاف کیا جاسکتا ہے ؟ اور اعتکاف  کرنے والا شخص اگر  مسجد کےاس حصے میں چلا جائے جس کے اوپر فلیٹ ہیں تو اس کے اعتکاف پر کوئی اثر ہو گا یا نہیں؟ اس مسئلہ کو شریعت کی روشنی میں حل فرما دیں۔

وضاحت:پلازہ والوں نے مسجد خریدنے کے لیے چندہ کر کے یہ جگہ مسجد کی نیت سے خریدی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب پلازہ والوں نے مسجد کے لیے چندہ کر کے مذکورہ دو فلیٹ خرید کر مسجد بنادی  تو یہ دونوں فلیٹوقف ہیں اور ان کی حیثیت مسجد  کی ہے،  البتہ یہ  شرعی مسجد  نہیں ہیں، کیوں کہ شرعی مسجد  وہ ہوتی ہے جوتحت الثری سے لےکر آسمان تک ہو، البتہ محراب والی جگہ کے اوپر چوں کہ  کوئی اور تعمیر نہیں ہے اوراسے وقف بھی کر دیا گیا ہے اس لیے وہ شرعی مسجد ہے۔

جمعہ کی نماز  صحیح ہونےکے لیے مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے  اور ماہِ رمضان کے مسنون اعتکاف کے لیے شرعی مسجد ہونا شرط ہے،  اس لیے اس  مسجد (مصلی )میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن یہاں ماہِ رمضان میں مسنون اعتکاف نہیں کیا جا سکتا، البتہ محراب والی جگہ چوں کہ شرعی مسجد ہے اس لیے اس جگہ پر شرعاً اعتکاف کرنا جائز ہے، لیکن وہاں اعتکاف میں بیٹھنے والا شخص اگر پیچھے مصلی والی جگہ پر آئے گا تو اس کا اعتکاف فاسد ہو جائےگا، ایسی صورت میں نفسِ جواز کے ہوتے ہوئے شرعی مسجد میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اعتکاف میں نہ بیٹھے تو گناہ نہیں ہوگا۔

 البحر الرائق میں ہے: 

"(قوله ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في فتح القدير وفي المصباح السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب. اهـ.

وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]".

(كتاب الوقف، 5/ 271، ط: دار الکتاب الإسلامي)

كذا في الشامية  (كتاب الوقف، 4/ 357 ط: سعيد)

الدر المختار میں ہے:

"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة."

وفي الشامية تحته:

"(قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه... وفي القهستاني ولا بد من إفرازه أي تمييزه عن ملكه من جميع الوجوه فلو كان العلو مسجدا والسفل حوانيت أو بالعكس لا يزول ملكه لتعلق حق العبد به كما في الكافي".

(كتاب الوقف،مطلب في أحكام المسجد4/ 355، ط:سعید)

وفي البحر:

"(قوله: سن لبث في مسجد بصوم ونية) أي ونية اللبث الذي هو الاعتكاف وقد أشار المصنف إلى صفته وركنه وشرائطه...وأشار باللبث إلى ركنه وبالمسجد والصوم والنية إلى شرائطه".

(كتاب الصوم ، باب الاعتكاف،  2/ 322 أيضاً)

الدر المختار میں ہے:

"(فلو خرج) ولو ناسيا (ساعة) زمانية لا رملية كما مر (بلا عذر فسد) فيقضيه إلا إذا أفسده بالردة واعتبرا أكثر النهار قالوا: وهو الاستحسان وبحث فيه الكمال".

وفي الشامية تحته:

"(قوله وبحث فيه الكمال) حيث قال قوله وهو استحسان يقتضي ترجيحه لأنه ليس من المواضع المعدودة التي رجح فيها القياس على الاستحسان ثم منع كونه استحسانا بالضرورة...وبه علم أنه لم يسلم كونه استحسانا حتى يكون مما رجح فيه القياس على الاستحسان كما أفاده الرحمتي فافهم".

(‌‌كتاب الصوم ،باب الاعتكاف2/ 447، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144306100921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں