باپ نے مسجد کے لیے زمین وقف کی، اس پرآبادی اور نماز پڑھنے کا مرحلہ نہیں آیا اور واقف مرگیا، اب واقف کی اولاد اس جگہ کے علاوہ دوسری جگہ مسجد بنانا چاہتے ہیں ۔کیا حکم ہے؟
اگر کوئی زمین مسجد وغیرہ کے لیے وقف کردی گئی، اور متولی یا ذمہ داران کے حوالہ کردی گئی اگرچہ اس پر نماز پڑھنے کا مرحلہ نہیں آتا تو یہ زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی گئی، وقف مکمل ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں، خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں ردوبدل کرنا جائز نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم واقف کی اولاد کوموقوفہ جگہ کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
فتح القدير میں ہے:
"(قوله: وإذا صح الوقف) أي لزم، وهذا يؤيد ما قدمناه في قول القدوري وإذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف. ثم قوله (لم يجز بيعه ولا تمليكه) هو بإجماع الفقهاء."
(کتاب الوقف، ج: 6، صفحہ: 220، ط: دار الفکر)
الجوهرة النيرة میں ہے:
"(وإذا صح الوقف على اختلافهم خرج من ملك الواقف) حتى لو كانوا عبيدا فأعتقهم لا يعتقون قوله (ولم يدخل في ملك الموقوف عليه)؛ لأنه لو دخل في ملكه نفذ بيعه فيه كسائر أملاكه ومعنى قوله إذا صح الوقف أي ثبت على قول أبي حنيفة بالحكم أو بالتعليق بالموت وعلى قولهما بالوقف والتسليم."
(كتاب الوقف، وقف المشاع، ج: 1، صفحہ: 334، ط: المطبعة الخيرية)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف، وصارحبیسًا علی حکم ملک الله تعالی، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته."
(الفقه الاسلامی وادلته، الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف، ج: 10، صفحہ: 7617، ط:دار الفكر - سوريَّة - دمشق)
فقط واللہ ا علم
فتوی نمبر : 144207200210
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن