بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف زمین کو بیچ کر رقم دوسری مسجد پر خرچ کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے ایک ٹرسٹ ادارہ کو ایک جگہ مسجد  کے لیے وقف کی مگر اس جگہ کی نوعیت ایسی تھی کہ جلدی بنانا مشکل تھا۔ جس کا سبب آبادی کا نہ ہونا اور پانی و بجلی کا نہ ہونا تھا۔ کافی عرصہ کے بعد اس وقف جگہ کے بالکل قریب ایک مسجد بن گئی۔ جس کی وجہ سے اس مقام پر اب مسجد کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اور اس ٹرسٹ ادارہ کو مسجد کے لیے ایک اور جگہ وقف ہوئی جہاں مسجد تعمیر ہورہی ہے اور بچوں کے پڑھنے کا انتظام بھی ہوگا۔ 

دریافت یہ کرنا ہے کہ پہلی وقف جگہ کہ جہاں مسجد کی خاص ضرورت بھی نہیں اور ادارہ کے پاس فی الحال وسائل بھی نہیں تو کیا اس پہلی وقف شدہ جگہ کو فروخت کر کے اس کی رقم ادارہ کو وقف شدہ دوسری جگہ جہاں مسجد کی تعمیر جاری ہے صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

وضاحت: مسجد کے لیے وقف کی تھی، مسجد کی ضرورت کے لیے وقف نہیں کی تھی اور نہ ہی صراحۃ تبدیلی کی اجازت دی تھی۔

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی زمین حد بندی کر کے مسجد کے لیے وقف کردی جائے تو وقف کرتے ہی وہ جگہ واقف کی ملکیت سے نکل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد  نہ اس کو فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی اور مصرف میں استعمال کی جاسکتی ہے لہذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے ایک جگہ مسجد کے لیے وقف کر کے ٹرسٹ کے حوالہ کردی تو وہ جگہ شرعا مسجد کے لیے وقف ہو گئی ، اب اس کو فروخت کرنا یا تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ ٹرسٹ کو چاہیے کہ جب اس کے پاس رقم مہیا ہو تو  اس جگہ کو تعمیر کر کے مسجد  کی شکل دے دیں اور جب تک رقم مہیا نہ ہو تو وہاں پانچ وقت کی نماز کی جو ممکنہ صورت ہو اس کو اختیار کر لیا جائے تاکہ مذکورہ مسجد بھی نمازوں سے آباد رہے۔  

فتاوی شامی میں ہے:

"و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني

(قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه)....«وأنه لو قال وقفته مسجدا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لا يصير مسجدا بلا حكم وهو بعيد كذا في الفتح ملخصا. ولقائل أن يقول: إذا قال جعلته مسجدا فالعرف قاض، وماض بزواله عن ملكه أيضا غير متوقف على القضاء، وهذا هو الذي ينبغي أن لا يتردد فيه نهر.

قلت يلزم على هذا أن يكتفى فيه بالقول عنده، وهو خلاف صريح كلامهم تأمل وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء."

(کتاب الوقف ج نمبر ۴ ص نمبر ۳۵۶، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا سلم المسجد إلى متول يقوم بمصالحه يجوز وإن لم يصل فيه، وهو الصحيح، كذا في الاختيار شرح المختار وهو الأصح كذا في محيط السرخسي وكذا إذا سلمه إلى القاضي أو نائبه، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الوقف، باب حادی عشر، فصل اول ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۵۵، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا خرب المسجد واستغنى أهله وصار بحيث لا يصلى فيه عاد ملكا لواقفه أو لورثته حتى جاز لهم أن يبيعوه أو يبنوه دارا وقيل: هو مسجد أبدا وهو الأصح، كذا في خزانة المفتين."

(کتاب الوقف، باب حادی عشر، فصل اول ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۵۸، دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"في فتاوى الحجة لو صار أحد المسجدين قديما وتداعى إلى الخراب فأراد أهل السكة بيع القديم وصرفه في المسجد الجديد فإنه لا يجوز، أما على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - فلأن المسجد وإن خرب واستغنى عنه أهله لا يعود إلى ملك الباني، وأما على قول محمد - رحمه الله تعالى -: وإن عاد بعد الاستغناء ولكن إلى ملك الباني وورثته، فلا يكون لأهل المسجد على كلا القولين ولاية البيع والفتوى على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا يعود إلى ملك مالك أبدا، كذا في المضمرات."

(کتاب الوقف، باب حادی عشر، فصل اول ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۵۸، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں