اگر مسجد کے متولی کے پاس مسجد کی جمع شدہ رقم پڑی ہو، تو کیا متولی مسجد اس جمع شدہ رقم سے کسی کو چند دنوں کیلئے قرض دے سکتاہےیا نہیں؟
واضح رہےکہ مسجدکی مدمیں جمع شدہ رقم میں سے اضافی رقم اگر حفاظت کی نیت سے قرض دی جائے، اور قرض دینے میں ضائع ہونے کاخدشہ نہ ہو،بلکہ مسجدکی ضرورت کے وقت باآسانی اس کی واپسی یقینی ہو ،اور قرض دی جانے والی رقم خطیر نہ ہو،توجائز ہے، وگرنہ تومسجد کے وقف مال کو کسی ایسی چیز میں استعمال کرنا کہ جس میں مسجد کا کوئی فائدہ نہ ہو، جائز نہیں۔
البحرالرائق میں ہے:
"قال في جامع الفصولين ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض. وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع المتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز. اهـ."
(كتاب الوقف، ٢٥٩/٥، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أراد المتولي أن يقرض ما فضل من غلة الوقف ذكر في وصايا فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - رجوت أن يكون ذلك وسعا إذا كان ذلك أصلح وأجرى للغلة من إمساك الغلة ولو أراد أن يصرف فضل الغلة إلى حوائجه على أن يرده إذا احتيج إلى العمارة فليس له ذلك وينبغي أن يتنزه غاية التنزه."
(كتاب الوقف، ٤٩٠/٢، ط:رشيدية)
امدادالاحکام میں ہے:
"اصل یہ ہےکہ وقف کی فاضل رقم کسی کوقرض دیدینا اس وقت جائز ہےجبکہ قرض دینے میں رقم کی حفاظت متوقع ہو، اور ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔"
(احکام المساجد والمدارس ، 228/3، مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144504100705
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن