بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی جگ سے مفاد عامہ کے لیے سڑک گزارنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایبٹ آباد  کی یونین کونسل دلولہ کے ایک گاؤں رتوال  کی  قدیم جامع مسجد کی حدود سے تقریبا 4  فٹ پیچھے ہٹا کر نئی مسجد تعمیر کی گئی ہے۔  یہ  4  فٹ  جگہ سابقہ مسجد میں شامل تھی،  اس 4  فٹ جگہ کو ابھی تک تعمیر شدہ دیکھا جا سکتا ہے اس 4 فٹ  پختہ جگہ سے  آگے6  فٹ کے فاصلے پر مسجد کے وضو خانہ زیر استعمال ہے ،وضو  خانے اور نئی مسجد کے درمیان سے علاقے کے لوگوں نے اکثریتی رائے سے ایک سڑک گزار دی تھی اور گاڑیوں کی آمد و رفت جاری ہے اس سڑک میں مذکورہ مسجد کا 4 فٹ  پختہ  حصہ  بھی شامل ہے اور سڑک گزارنے کے لئے کچھ  حصہ  وضو خانے  کا بھی توڑا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ بالا جگہ  4 فٹ چوڑائی اور تقریباً 30 فٹ  لمبائی پر مشتمل ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر اس روڈ کو بند کیا گیا تو  محلہ اور گاؤں کے لوگوں کے لیے شدید مشکلات درپیش ہوں گی۔

جواب طلب امر یہ ہے کہ مسجد کی جگہ  (خاص طور پر وہ جگہ جو قدیم مسجد کا حصہ تھا)سے مفاد عامہ کے لیے روڈ گزارنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟ ازروئے شریعت رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں ۔

جواب

واضح  رہے کہ جو جگہ مسجد کے لئے وقف ہوجائے ، وہ ہمیشہ کے لئے وقف ہوجاتی ہے، اور زمین کے جس حصہ میں مسجدِ  شرعی تعمیر کردی جائے،  وہ  جگہ تا قیامت مسجد کے لیے مختص ہوجاتی ہے،  اُس جگہ کو فروخت کرنا، کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا  شرعًا جائز نہیں ہے۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجد کے حصے کو  مفاد عامہ کی خاطر سڑک بنانا جائز نہیں ہے،سڑک کے لیے اس کا کوئی اور  متبادل حل نکالا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجداً عند الإمام والثاني) أبداً إلى قيام الساعة، (وبه يفتي) حاوي القدسي."

(کتاب الوقف،ج: 4، صفحہ: 358، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن أرادوا أن يجعلوا شيئا من المسجد طريقا للمسلمين فقد قيل: ليس لهم ذلك وأنه صحيح، كذا في المحيط."

( كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به، الفصل الأول فيما يصير به مسجدا، ج: 2، صفحه: 457، ط: رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں