بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے مدرسہ کی چھت پر کمپنی کا ٹاور کرایہ پر لگانے کا حکم


سوال

مسجد کی وقف شدہ زمین میں مسجد کے علاوہ مسجد کے اخراجات اور ضروریا ت کے لیےجگہ اور ساتھ میں امام صاحب کےلیے گھر بنایا گیا ہے  اور اس پوری جگہ کے اوپر مدرسہ بنایا گیا ہے، اب مسجد کی کمیٹی والوں  میں سے ایک آدمی نے کسی کمپنی سے بات کی کہ آپ اس مدرسہ کے اوپر بوسٹر(انٹرنیٹ یا سم کا سگنل ٹاور) لگائیں، کیوں کہ مسجد کے اخراجات زیادہ  ہیں، تو کیا یہ شرعاً جائز   ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد کے لیے وقف شدہ زمین میں جس جگہ کو شرعی مسجد بنادی جائے، وہ جگہ آسمان تک مسجد  کے حکم میں ہوتی ہے، اس جگہ کو مسجد کے علاوہ کسی دوسری چیز میں استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،اسی لیے مسجد کی چھت پر کسی بھی کمپنی کا کوئی بھی ٹاور لگانے کی شرعا اجازت نہیں ہے،   البتہ  جو جگہ مسجد کی ہو ،مگر شرعی مسجد نہ ہو مثلاً مسجد کاوضو خانہ،بیت الخلا،اسٹور،مسجد کی دوکانیں وغیرہ، ان کی  چھت پر ٹاور  کرایہ پر ٹاور لگانا جائز ہے، تاہم اس کا کرایہ مسجد و مصالح مسجد میں صرف کرنا شرعًا ضروری ہوگا۔

 لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شرعی مسجد کے علاوہ امام صاحب کے گھر اور مدرسہ کے اوپر مسجد کی آمدن کے لیے   ٹاور لگانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ یہ عمارت کے  لیے نقصان دہ نہ ہو اور کمپنی  سے اجارہ کی مدت اور کرایہ بھی متعین کرکے طے کرلیا جائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره تحريما (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء".

"(قوله إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي".

(كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، فروع، ج:1، ص:656، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى".

"(قوله: أما لو تمت المسجدية) أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما ط".

"(قوله: ولا أن يجعل إلخ) هذا ابتداء عبارة البزازية، والمراد بالمستغل أن يؤجر منه شيء لأجل عمارته وبالسكنى محلها وعبارة البزازية على ما في البحر، ولا مسكنا وقد رد في الفتح ما بحثه في الخلاصة من أنه لو احتاج المسجد إلى نفقة تؤجر قطعة منه بقدر ما ينفق عليه، بأنه غير صحيح. قلت: وبهذا علم أيضا حرمة إحداث الخلوات في المساجد كالتي في رواق المسجد الأموي، ولا سيما ما يترتب على ذلك من تقذير المسجد بسبب الطبخ والغسل ونحوه ورأيت تأليفا مستقلا في المنع من ذلك".

(كتاب الوقف، فرع بناء بيتا للإمام فوق المسجد، ج:4، ص:358، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601102318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں