میرا سوال یہ ہے کہ مسجد کی شرعی حدود کے اوپر والے حصے میں یا بیسمینٹ (تہہ خانہ ) میں مستورات کے لئے مدرسہ شروع کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ جب کہ پڑھانے والی بھی عالمہ خاتون ہے اور پڑھنے والی بھی سب مستورات ہیں۔
واضح رہے کہ جس جگہ شرعی اصول کے مطابق مسجد تعمیر کی گئی ہو وہ جگہ زمین تا آسمانوں تک مسجد کے حکم میں آجاتی ہے، پس مسجد کی چھت اور تہہ خانہ بھی مسجد کے حکم میں داخل ہے، اور مسجد کے نچلے حصہ یا چھت کو مدرسہ میں تبدیل کرنا مصالحِ وقف کے بھی خلاف ہے،لہذا صورت ِ مسئولہ میں مسجد کی چھت یا تہہ خانہ میں مستورات کی تعلیم جائز نہیں ہے ،نیز ایسی صورت میں مسجد میں جب مستورات پڑھیں گی، تو بعض اوقات ان کے ناپاکی کے ایام شروع ہو جاتے ہیں، جس سے مسجد کی بے ادبی ہوتی ہے، کیونکہ مسجد میں ناپاکی کی حالت میں ٹھہرنا بالکل جائز نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"قال في البحر: وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]- بخلاف ما إذا كان السرداب والعلو موقوفا لمصالح المسجد، فهو كسرداب بيت المقدس هذا هو ظاهر الرواية."
(کتاب الوقف،فرع بناء بیتا للامام الخ،358/4،ط :ایچ ایم سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية".
(کتاب الوقف، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ،2 / 362، ط: رشیدیہ)
البحر الرائق میں ہے:
"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد للّٰه} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة و اعتكاف و ذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد."
( کتاب الصلاۃ، 2 / 36، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(الأحكام التي يشترك فيها الحيض والنفاس ثمانية)(ومنها) أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور. هكذا في منية المصلي."
(کتاب الطھارۃ ،الباب السادس ،الفصل الرابع،38/1،ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101935
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن