بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی حدود سے باہر بنی قبر کی وجہ سے مختلف نمازوں کا حکم


سوال

ہمارے علاقے ضیاء کالونی اورنگی ٹاؤن کی جامع مسجد مومن گراؤنڈ فلور اور فرسٹ فلور پر مشتمل ہے، مسجد کی حدود میں امام صاحب کی تدفین اس طرح کی گئی ہے کہ مسجد کا وہ حصہ جہاں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے اور وہ حصہ نماز ہی کے لیے متعین ہے، قبر اس کی حدود سے باہر بنائی گئی ہے اور قبر والی جگہ کا مسجد کی عمارت سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ سوال کے ساتھ منسلکہ مسجد کی حدود کی تصاویر سے واضح ہے اور قبر بھی کسی ضرورت کے پیشِ نظر نہیں بنائی گئی، بلکہ مسجد کے برابر میں جگہ خالی پڑی تھی تو وہیں مسجد کے امام صاحب کی قبر بنادی گئی۔

1- کیا اس طرح قبر بنانے کی وجہ سے مسجد کے اندر جو نماز پڑھی جائے گی، وہ نماز ادا ہوجائے گی یا نہیں؟

2- مسجد کے برابر میں مدرسہ ہے اور اس کی درمیانی جگہ کافی کشادہ ہے جہاں جنازے کی نماز پڑھی جاتی ہے، لیکن یہ جگہ قبر کے بالکل پیچھے ہے، البتہ 10 سے 12 فٹ کی دیوار درمیان میں حائل ہے اور نمازِ جنازہ پڑھتے وقت قبر دکھائی بھی نہیں دیتی تو کیا ایسی صورت میں مذکورہ جگہ میں اس طرح نمازِ جنازہ ادا کرنا کہ قبر بالکل سامنے ہو لیکن دکھائی نہ دیتی ہو، جائز ہے یا نہیں؟

3- اسی طرح عیدین وغیرہ کے موقع پر قبر کے پیچھے والی جگہ میں نماز پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ 

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں سائل کے بیان کے مطابق اور سوال کے ساتھ منسلكه مسجد كے نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ جامع مسجد مؤمن میں امام صاحب مرحوم کی قبرمسجد کے احاطے سے باہر کی جانب بنی ہوئی ہے، لہٰذا ایسی صورت میں مذکورہ مسجد میں نماز پڑھنا بلاکراہت جائز ہے، اس قبر کی وجہ سے مذکورہ مسجد میں ادا کی گئی نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا، آج تک جو نمازیں پڑھی گئیں، وہ ادا ہوگئی ہیں۔

2/ 3: قبر کے بالکل متصل پیچھے نمازِ جنازہ ادا کرنا یا عیدین کے موقع پر اس جگہ صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ:

اگر کوئی شخص ایسی جگہ نماز پڑھ رہا ہے کہ قبر اس کے دائیں یا بائیں یا پیچھے کی جانب ہے تو ایسی جگہ نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے اور اگر جگہ ایسی ہے کہ قبر نمازی کے بالکل سامنے ہے اور درمیان میں کوئی سترہ یا دیوار وغیرہ حائل بھی نہیں ہے تو ایسی جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

مذکورہ تفصیل کے بعد سائل کے بیان اور مسجد کے نقشے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ مسجد میں قبر کی جگہ اگرچہ جنازہ گاہ کے بالکل سامنے ہیں، لیکن  قبر اور  جنازہ گاہ کے درمیان دس سے بارہ فٹ کی  ایک دیوار  حائل ہے اور نمازِ جنازہ یا کوئی بھی نماز پڑھتے وقت قبر دکھائی بھی نہیں دیتی، اس لیے مذکورہ جگہ میں نمازِ جنازہ ادا کرنا یا عیدین کے موقع پر صف بناکر نماز پڑھنا یا کوئی بھی نماز پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا بأس بالصلاة فيها إذا كان فيها موضع أعد للصلاة وليس فيه قبر ولا نجاسة كما في الخانية."

(ج:1، ص:380، كتاب الصلاة، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الحاوي: وإن كانت القبور ‌ما ‌وراء ‌المصلي لا يكره، فإنه إن كان بينه وبين القبر مقدار ما لو كان في الصلاة ويمر إنسان لا يكره، فههنا أيضا لا يكره. كذا في التتارخانية."

(ج:1، ص:107، كتاب الصلاة، الباب السابع، الفصل الثاني، ط:رشيدية)

وایضاً:

"وتكلموا أيضا في معنى الكراهة إلى القبر، قال بعضهم: لأن فيه تشبها باليهود، وقال بعضهم: لأن في المقبرة عظام الموتى وعظام الموتى أنجاس وأرجاس، وهذا كله إذا لم يكن بين المصلي وبين هذه المواضع حائط أو سترة، أما إذا كان، لا يكره ويصير الحائط فاصلا، وإذا لم يكن بين المصلي وبين هذه المواضع سترة، فإنما يكره استقبال هذه المواضع في مسجد الجماعات، فأما في مسجد البيوت، فلا يكره، كذا في المحيط."

(ج:5، ص:320، كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں