زیادہ تر مسجد اور مدرسے کی کمیٹی کے ممبران با شرع نہیں ہوتے، اور ان کو مسجد ومدرسہ کا کوئی علم بھی نہیں ہوتا، بس محلے کے لوگ انہیں مال داری کی وجہ سے ذمہ دار بنا دیتے ہیں، ایسے لوگوں کو ذمہ دار بنانا شرعی اعتبارسےکیسا ہے؟ کن لوگوں کو شرعی اعتبار سے مسجدو مدرسہ کا ذمہ دار بنانا چاہیے ؟
مسجد کی کمیٹی میں ایسےلوگ ہونے چاہییں جو دین دار ،امانت دار اورمسجد و مدرسہ کے انتظامی معاملات کو سمجھنے اور چلانے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہوں،نیز یہ اہل محلہ کی ذمہ داری ہے کہ مسجد کی کمیٹی کے لیے مذکورہ اوصاف والوں کو منتخب کریں، اور ایسے لوگوں کو جونہ خود دین کے پابند ہوں اور نہ دین کا جذبہ رکھتے ہوں یا ان کے اندر انتظامی امور کو چلانے کی صلاحیت نہ ہو،یا امانت دار نہ ہوں ،مسجد کی کمیٹی کا ممبر منتخب نہیں کرنا چاہیے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وينزع) وجوبا بزازية (لو) الواقف درر فغيره بالأولى (غير مأمون) أو عاجزا أوظهر به فسق كشرب خمر ونحوه فتح
(قوله: غير مأمون إلخ) قال في الإسعاف: ولا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه لأن الولاية مقيدة بشرط النظر وليس من النظر تولية الخائن لأنه يخل بالمقصود، وكذا تولية العاجز لأن المقصود لا يحصل به....والظاهر: أنها شرائط الأولوية لا شرائط الصحة وأن الناظر إذا فسق استحق العزل ولا ينعزل كالقاضي إذا فسق لا ينعزل على الصحيح المفتى به."
(کتاب الوقف ج:4ص:380 ،ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"الصالح للنظر من لم يسأل الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف قال وصرح بأنه مما يخرج به الناظر ما إذا ظهر به فسق كشربه الخمر ونحوه."
(كتاب الوقف، ج:5، ص:244، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101835
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن