اگرمحلہ والے مشورہ کے ساتھ اپنی مسجد کی کوئی چیز کرایہ پر دیں؛ تاکہ اس کی رقم مسجد کے فنڈ میں جمع کریں تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
اگر اس چیز کی مسجد میں فی الفور ضرورت نہ ہو، اور کرائے پر دینا قرینِ مصلحت ہو تو مسجد انتظامیہ کے لیے کرایہ پر دینا اور اس کرایہ کو مسجد کی ضروریات میں خرچ کرنا درست ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"القيم إذا اشترى من غلة المسجد حانوتًا أو دارًا وأراد أن يستغل ويباع عند الحاجة جاز إن كان له ولاية الشراء وإذا جاز أن يبيعه، كذا في السراجية...الفاضل من وقف المسجد هل يصرف إلى الفقراء؟ قيل: لايصرف وأنه صحيح ولكن يشتري به مستغلًا للمسجد، كذا في المحيط". (2/ 462و 463 رشیدیہ) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144111201817
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن