بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی چھت پر سیلولر کمپنی کا ٹاور کرایہ پر لگانے کا حکم


سوال

 جیسے کہ آج کل گھروں کی چھتوں پر ٹاور نصب کیے جاتے ہیں موبائل کمپنی کی طرف سے، انٹرنیٹ کمپنی کی طرف سے اور یہ کمپنیاں ان کو  ماہانہ ٹاور نصب کرنے کا کرایہ ادا کرتی ہے، کیا اس طرح کا  ٹاور ہم مسجد کی چھت پر لگاسکتے ہیں؟تاکہ اس کی جو ماہانہ آمدنی ہیں وہ مسجد کے اخراجات میں استعمال ہو کیا یہ ٹاور لگانا جائز ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ جو  جگہ  ایک مرتبہ مسجد   کے لیے وقف کردی جائے،  اس جگہ پر مسجد کے علاوہ کچھ اور بنانے کی شرعا اجازت نہیں ہوتی، اسی طرح جس جگہ مسجد تعمیر کردی جائے، وہ جگہ زمین تا آسمان مسجد کے لیے مختص ہوجاتی ہے، یعنی مسجد کی عمارت  کے اندر جس طرح کوئی اور چیز بنانے و نصب کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح مسجد کی چھت پر بھی کچھ اور بنانے یا نصب کرنے کہ اجازت نہیں ہوتی، لہذا صورت مسئولہ میں مسجد کی چھت پر موبائل کمپنیوں کے ٹاور کرایہ پر نصب کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ مسجد کے بيت الخلاء یا دوکانوں کی چھت پر ٹاور  کرایہ پر لگانے  کی اجازت ہوگی، تاہم اس کا کرایہ مسجد و مصالح مسجد میں صرف کرنا شرعًا ضروری ہوگا۔

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

" أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية.

(قوله: ولو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا. اهـ. ط ونقل في البحر قبله ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وإن كان من أوقافه. اهـ.

قلت: وبه حكم ما يصنعه بعض جيران المسجد من وضع جذوع على جداره فإنه لا يحل ولو دفع الأجرة 

(قوله: ولا أن يجعل إلخ) هذا ابتداء عبارة البزازية، والمراد بالمستغل أن يؤجر منه شيء لأجل عمارته وبالسكنى محلها وعبارة البزازية على ما في البحر، ولا مسكنا وقد رد في الفتح ما بحثه في الخلاصة من أنه لو احتاج المسجد إلى نفقة تؤجر قطعة منه بقدر ما ينفق عليه، بأنه غير صحيح. قلت: وبهذا علم أيضا حرمة إحداث الخلوات في المساجد كالتي في رواق المسجد الأموي، ولا سيما ما يترتب على ذلك من تقذير المسجد بسبب الطبخ والغسل ونحوه ورأيت تأليفا مستقلا في المنع من ذلك."

( كتاب الوقف، ٤ / ٣٥٨، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں