بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی چھت پر مدرسہ البنات کا حکم


سوال

اہلِ محلہ نے نیت کرکے مسجد کی دوسری منزل کو "مدرسۃ البنات" کے لیے مختص کیا ہے، کیا عالمات فاضلات جز وقتی یاکل وقتی طور پر لڑکیوں کو تعلیم دے سکتی ہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ مسجد کی چھت پر مدرسۃ البنات بنانا جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية".

(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

وفیه أیضًا (۱/۳۸):

"(ومنها) أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور."

البحر الرائق  میں ہے:

"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد للّٰه} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة و اعتكاف و ذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد".

(2 / 36 ، کتاب الصلاۃ، فصل ، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں