بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے چھت پر گھاس بچھانا اور پودے لگانا اور اس کے پھل کا استعمال


سوال

مسجد کے اوپر چھت میں پھول اور اناج کی ٹوپی لگانا کیسا  ہے، اور  میں   اس مسجد کا امام ہوں ، میرے لیے  یہ پھل کھانا جائز  ہوگا یا نہیں؟اور  مسجد میں زیادہ گرمی  ہے تو ٹھندک کے لیے  مسجد کے اوپر چھت پر گھاس لگانا چاہتے ہیں، کیا لگاسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص ہو ، وہ  زمین سے آسمان تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے،  اس میں کوئی ایسا کام کرنا جو مسجد  کے مقاصد   یا آداب کے خلاف  ہو، شرعاً جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مسجد کی چھت بھی مسجد ہے، اس کا بھی ادب واحترام کرنا  اور پاک وصاف رکھنا ضروری ہے،اس لیے   اس میں پودوں کی کیاری لگانے یا گھاس بچھانے کی  اجازت نہیں ، ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس   میں  مسجد کی تلویث ہوگی، دوسری وجہ ادب واحترام کے خلاف ہوگا، اور پاک وصاف رکھنا ممکن نہیں ہوگا ، اور  مسجد کا ادب واحترام کرنا اور   تلویث و گندگی سے پاک، صاف  رکھنا ضروری ہے، لہذا مسجد کی چھت پر پودوں کی کیاری لگانا یا  گھاس بچھانا جائز نہیں ہے، گرمی کی شدت میں کمی کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے  مسجد میں گندگی وغیرہ نہ ہو۔مثلاً اوپر سایہ کے لیے چادر ڈال دیں وغیرہ۔

باقی اگر مسجد کی حدود سے باہر مسجد کے احاطہ میں پودوں کی کیاری لگائی جائے تو یہ جائز ہے، پھر  اگر  پودے لگانے والے نے   عا م لوگوں کے استعمال کے لیے لگائے ہیں تو   لوگ  (بشمول امام کے)ان درختوں کے پھلوں کو  کھاسکتے ہیں، لیکن  اگر یہ مسجد کی آمدنی کے لیے لگائے ہیں یا اس کی نیت معلوم نہیں ہے تو اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت مسجد  کے مصارف میں صرف کرنا ضروری ہے، مسجد میں اس کی قیمت ادا  کیے بغیر اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

 فتاوی شامی میں ہے:

''(و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء، (واتخاذه طريقاً بغير عذر)، وصرح في القنية بفسقه باعتياده، (وإدخال نجاسة فيه)، وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس، (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ۔ (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه، إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد) علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام. ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه؛ ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي."

(1 / 656، مطلب فی احکام المسجد، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، ط:سعید)

وفیہ أیضا:

"في الحاوي: غرس في المسجد أشجارًا تثمر إن غرس للسبيل فلكل مسلم الأكل وإلا فتباع لمصالح المسجد.

(قوله: إن غرس للسبيل) وهو الوقف على العامة، بحر (قوله: وإلا) أي وإن لم يغرسها للسبيل بأن غرسها أو لم يعلم غرضه، بحر عن الحاوي، وهذا محل الاستدلال على قوله الظاهر: أنه إذا لم يعلم شرط الواقف لم يأكل، وهو ظاهر، فافهم."

 (4/ 432، کتاب الوقف، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100976

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں