بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی چھت پر بچوں کو دینی تعلیم دینا


سوال

ہماری مسجد   کی بالائی منزل پر بچوں اور بچیوں کو ناظرہ کی  تعلیم دی جاتی ہے ،جبکہ اس کے متبادل جگہ نہیں ،اور تمام بچے غیر رہائشی ہیں ،شرعی طور پر اس  طریقۂ تعلیم میں کوئی بے ادبی تو نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  مسجد میں بلاضرورت درس وتدریس کاکام کرنا مکروہ ہے اور ضرورت کی وجہ سے مسجد کے اندر تعلیم و تعلم کی اجازت ہے، فقہاءِ کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ گرمی سے بچنے کے لیے ضرورۃً مسجد میں درس دینا بلاکراہت جائز ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر دینی تعلیم اور قرآنِ کریم کی تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہ ہو تو  مسجد میں تعلیم دینا بھی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ ضرورت کی وجہ سے مسجد کی چھت پر بچوں کو قرآن کی تعلیم دی جا سکتی ہے ،اور اس  سے کوئی بے ادبی بھی لازم نہیں آتی ۔البتہ ایسے نابالغ بچے جن کے مسجد میں آنے سے مسجد کی تلویث کا خطرہ ہو ، مسجد میں  نہیں لانا چاہیے ۔

فتاویٰ بزازیہ میں ہے :

"وتعلیم الصبیان فیه بلاأجر و بالأجر یجوز". 

( البزازیة،کتاب الکراهیة، الفصل الأول، نوع في المسجد،3/201، وعلی هامش الهندیة، 6/357، زکریا جدید)

وفیہ ایضا:

"معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کرهإلا للضرورة، وإن حسبة لا".

( البزازیة،زکریاجدید، 1/55، وعلی هامش الهندیة، 4/82)

حلبی کبیر میں ہے :

"أما الکاتب ومعلم الصبیان فإن کان بأجر یکره وإن کان حسبةً فقیل: لایکره، والوجه ماقاله إبن الهمام: أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورةً؛ لأن نفس التعلیم ومراجعة الأطفال لایخلو عما یکره في المسجد".

(حلبي کبیر/611، 612، أشرفیه )

فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے :

"ویکره أن یخیط في المسجد؛ لأنه أعد للعبادة  دون الاکتساب، کذا الوراق والفقیه إذا کتب بأجرة، وأما المعلم إذا علم الصبیان بأجرة، وإن فعلوا بغیر أجرة فلا بأس به".

(الخانیة، کتاب الطهارة، فصل في المسجد،1/43، وعلی هامش الهندیة 1/65، 66، زکریا جدید)

   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100741

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں