بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی چھت کے لیے جمع شدہ چندہ مسجد کے کسی اور کام میں استعمال کرنا


سوال

مسجد درگاہ عبدالحکیم میں مسجد زیر تعمیرہے ، صحن کے بعد اب چھت ڈالنے کے لیے واقفین حضرات نے چندہ دیا ہے، اب مسجد کے منتظمین کہتے ہیں کہ چھت کے علاوہ اور کام کریں گے، میرا مؤقف یہ ہے کہ واقفین نے جب کسی خاص کام کے لیے چندہ دیا ہے تو دوسری مد میں استعمال نہیں کیاجاسکتا ،جس مد کے لیے واقفین نے دیا ہے اسی میں استعمال ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے ؟

واضح رہے کہ نہ واقفین کو معلوم ہے نہ ان سے اجازت ممکن ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں لوگوں سے مسجد کی چھت کے لیے جمع کی گئی رقم کو مسجد کی چھت کی تعمیر میں خرچ کرناضروری ہے، جب چھت کی تعمیر باقی ہے اور چھت مسجد کی ضروریات میں سے ایک اہم ضرورت بھی ہے تو دیگرامور کے بجائے منتظمین کو چھت کی تعمیر کو مقدم کرنا چاہیے۔ چندہ دینے والوں کی اجازت کے بغیر چھت کے لیے جمع کی جانے والی رقم مسجد کی دوسری ضروریات  میں خرچ کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر چندہ دینے والے   اس رقم کو کسی دوسرے مصرف یعنی: مسجد کی دیگر ضروریات  میں خرچ کرنے کی اجازت دے دیں، تو  اسے  دیگر ضروریات میں  خرچ کرنا جائز ہو گا ۔

امدادالاحکام میں ہے :

"مسجد کے چراغ کے لئے دی جانے والی رقم دوسرے مصرف میں خرچ نہیں کی جاسکتی

سوال:۔ بہ نیت چراغ مسجد میں پیسہ دیتے ہیں، اس پیسہ سے دوسرا کام جیسے بچھونا ، ستون خریدنا یا مؤذن وامام کا مشاہرہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ 

الجواب:۔جب پیسہ دینے والا چراغ مسجد کا نام لیتا ہے تو دسرے مصرف میں اس رقم کو صرف کرنا جائز نہیں ۔ اگر چراغ کے لیےضرورت کم ہو اور دوسرے کام کے لیےرقم کی ضرورت ہو تو پیسہ دینے والے سے بصراحت اجازت لینی چاہئے کہ اگر تیل کی ضرورت نہ ہو تو ہم اس رقم کو دوسرے مصارف مسجد میں صرف کردیں یا نہیں؟ اگر وہ اجازت دے دے تو پھر اس رقم کو صرف کرنا جائز ہوجائے گا۔

وفی الخلاصۃ: رجل قال: جعلت حجرتی لدھن سراج المسجد ولم یزد علی ھذا صارت الحجرۃ وقفًا علی المسجد اذا سلمھا الی المتولی ولیس للمتولی ان یصرف غلتھا الی غیر الدھن اھ۔ (ج؍۴،ص؍۴۴۲)  واللّٰہ اعلم ."

(امدادالاحکام،احکام المساجد،ج:۳، ص:۱۷۳ ،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فتاوی شامی میں ہے:

" قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به (قوله: قولهم شرط الواقف كنص الشارع) في الخيرية قد صرحوا بأن الاعتبار في الشروط لما هو الواقع لا لما كتب في مكتوب الوقف، فلو أقيمت بينة لما لم يوجد في كتاب الوقف عمل بها بلا ريب لأن المكتوب خط مجرد ولا عبرة به لخروجه عن الحجج الشرعية. اهـ."

(کتاب الوقف، مطلب في قولهم شرط الواقف كنص الشارع، ج: 4، صفحہ: 433، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً:

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(ج:۴،ص:۴۴۵،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں