بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی چھت کو تجارت کے لیے استعمال کرنا اورمتولی کے ہوتے ہوئے کمیٹی کے کچھ اراکین کا بغیر کسی وجہ کے امام صاحب کو معزول کرنا جائز نہیں ہے


سوال

ہماری مسجد کے امام صاحب کا ایک رکنِ کمیٹی سے جھگڑا ہوا، جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ رکنِ کمیٹی مسجد کی چھت کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا تھا اور غالباً گمان یہی ہے کہ اسی وجہ سے ذاتی جھگڑا بھی ہوا،اس پر امام صاحب نے نمازِ جمعہ کے بعد نمازیوں سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ" میں ایک ماہ بعد چلا جاؤں گا، امام صاحب کو بعد میں احساس ہوا تو انتظامیہ کو معافی نامہ لکھا، انتظامیہ نے کچھ قیل و قال کے بعد معافی نامہ قبول کرلیا،لیکن دیگر کچھ ممبران (جوکہ آپس میں رشتہ دار ہیں) بضد ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ آپ ایک ماہ بعد چلے جائیں گے، ہم آپ کی بات سے متفق ہیں، لہٰذا آپ چلے جائیں، اور کچھ دنوں بعد تین اراکینِ کمیٹی انتظامیہ کے سینئیر حضرات کو اعتماد میں لیے بغیر امام صاحب کو نماز پڑھانے سے روک دیا ۔

راہ نمائی فرمائیں کہ انتظامیہ کے سینئیر حضرات جوکہ مسجد کے متولی بھی ہیں سے پوچھے بغیر امام صاحب سے جھگڑنا، انہیں نماز پڑھانے سے روکنا اور مسجد سے فارغ کردینا کیسا ہے؟ اور مسجد کی چھت کو تجارتی مقاصد کےلیے استعمال کرنا کیسا ہے؟جب کہ نمازی حضرات امام صاحب سے مطمئن ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، اور اسے کسی دنیوی کام کے لیے استعمال میں لانا شرعاً درست نہیں ہے، جیسا کہ حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ مسجدیں تلاوتِ کلامِ پاک، ذکر اللہ اور نماز پڑھنے کی جگہ ہے، اور دوسری جگہ  حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر تم کسی شخص  کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے پاؤ تو اسے  کہو کہ :اللہ کرے  تیری  تجارت نفع بخش نہ ہو۔

          مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص  اگر واقعۃً مسجد کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے تو اس کا یہ عمل شرعاً جائز نہیں  تھا، اور اس پر امامِ مسجد کا اعتراض کرنا بجا تھا، ایسے میں اگر امام صاحب نے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے  یہ بات کہہ بھی  دی ہو  کہ" میں ایک مہینے بعد مسجد چھوڑ کر چلا جاؤں گا" تو اس کی بنیاد پر امامِ مسجد کو امامت سے نہیں ہٹایا جاسکتا، خصوصا مذکورہ تین اراکینِ کمیٹی جوکہ مسجد کے متولی بھی نہیں ہیں ان  کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ امام صاحب کو نماز پڑھانے سے روکیں یا اسے امامت سے معزول کریں۔

امامِ مسجد کو تو بغیر کسی سبب کے  متولی بھی امامت سے معزول نہیں کرسکتا،جب کہ مذکورہ صورتِ حال میں امامِ مسجد حق پر ہیں، لہٰذا مذکورہ تین اراکین  کو اپنے اس بے جا مطالبے سے باز آنا چاہیے ،اور وہ شخص جس نے مسجد کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ان کو اپنے اس عمل پر نادم ہوتے ہوئے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة الأنصاري، عن عمه أنس بن مالك قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدًا في المسجد وأصحابه معه، إذ ‌جاء ‌أعرابي ‌فبال في المسجد، فقال أصحابه: مه مه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تزرموه دعوه "، ثم دعاه فقال له: " إن هذه المساجد لا تصلح لشيء من القذر والبول والخلاء "، أو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما هي لقراءة القرآن وذكر الله والصلاة ". فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لرجل من القوم: " قم فأتنا بدلو من ماء، فشنه عليه" فأتاه بدلو من ماء فشنه عليه."

(مسند انس  بن مالک رضی اللہ عنہ، ج20، ص297،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق  میں ہے:

"(وكره إحضار المبيع والصمت والتكلم إلا بخير) أما إحضار المبيع وهي السلع للبيع فلأن المسجد محرز عن حقوق العباد وفيه شغله بها وجعله كالدكان وقوله وكره إحضار المبيع يدل على أن له أن يبيع ويشتري ما بدا له من التجارات من غير إحضار السلعة وذكر في الذخيرة أن المراد به ما لا بد له منه كالطعام ونحوه وأما إذا أراد أن يتخذ ذلك متجرا يكره له ذلك وهذا صحيح لأنه منقطع إلى الله تعالى فلا ينبغي له أن يشتغل فيه بأمور الدنيا ولهذا تكره الخياطة والخرز فيه ولغير المعتكف يكره البيع مطلقًا لما روي أنه عليه الصلاة والسلام «نهى عن البيع والشراء في المسجد» رواه الترمذي وعنه عليه الصلاة والسلام أنه قال: «إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع في المسجد فقولوا له لا أربح الله تجارتك» الحديث أخرجه النسائي وقال - عليه الصلاة والسلام - «من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل لا ردها الله عليك."

(کتاب الصوم، اعتکاف المرءۃ،ج1،ص351،ط: المطبعۃ الکبری)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)(2/ 449)  :

"(وكره) أي تحريما لأنها محل إطلاقهم بحر (إحضار مبيع فيه) كما كره فيه مبايعة غير المعتكف مطلقًاللنھی."

الدر مع الرد میں ہے:

"مطلب في ‌عزل ‌الواقف ‌المدرس والإمام وعزل الناظر نفسه.

"(قوله: ولم أر حكم عزله لمدرس وإمام ولا هما) أقول: وقع التصريح بذلك في حق الإمام والمؤذن ولا ريب أن المدرس كذلك بلا فرق. ففي لسان الحكام عن الخانية: إذا عرض للإمام والمؤذن عذر منعه من المباشرة ستة أشهر للمتولي أن يعزله ويولي غيره، وتقدم ما يدل على جواز عزله إذا مضى شهر بيري. أقول: إن هذا العزل لسبب مقتض والكلام عند عدمه ط قلت: وسيذكر الشارح عن المؤيدة التصريح بالجواز لو غيره أصلح ويأتي تمام الكلام عليه، وقدمنا عن البحر حكم عزل القاضي المدرس ونحوه وهو أنه لا يجوز إلا بجنحة وعدم أهلية."

(کتاب الوقف، فصل فی اجارۃ الواقف،ج4، ص427،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100095

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں