بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی چھت کو مصالح عامہ کے لیے استعمال کرنے کا حکم


سوال

ہم ایک پرائیویٹ ٹاؤن میں رہائش پذیر ہیں اور اس پرائیویٹ ٹاؤن والوں نے ٹاؤن کے رولز و ریگولیشن کے مطابق نمازیوں کے لیے ایک مسجد بھی تعمیر کر رکھی ہے،اور اس کے ساتھ ہی ایک ٹیوب ویل کا انتظام کیاہے،جس سے ٹاؤن والوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے اور مسجد کے نمازیوں کے وضو وغیرہ کی ضروریات بھی ٹیوب ویل سے پوری ہوتی ہیں، واضح رہے کہ ٹیوب ویل ٹھیکدار ہر گھر سے 1500 ماہانہ اجرت / بل وصول کرتا ہے لیکن اس کے باوجود آئے روز بجلی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اس 1500 روپے میں ٹيوب ویل چلانا مشکل ہو رہا ہے، جسکی وجہ سے واپڈا والے دو تین دفعہ ٹیوب ویل سے بجلی کا میٹر کاٹ کر لے گئے ہیں،اور بعد میں چندہ کر کے بجلی کا میٹر دوبارہ بحال کیا گیا ہے، اور اب بھی تقریباً بارہ لاکھ روپے سے زائد کے بقایاجات اس ٹیوب ویل کے ذمہ ہے۔مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ٹیوب ویل کے لئے ٹھیکدار سولر پلانٹ نصب کرنا چاہتا ہے، لیکن سولر پینل کے لیے جگہ عدم دستیاب ہے اور مسجد کی چھت کے علاوہ کوئی اور متبادل جگہ دستیاب نہیں ہے اور ٹیوب ویل ٹھیکدار اس مسجد کی چھت پر سولر پینل نصب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ ضروریات مسجد اور عوام کی تکلیف کا ازالہ بھی ہو اور آئے روز واپڈا کی نارواہ سلوک سے بھی بچا جا سکے۔ یاد رہے کہ ٹیوب ویل کے لیے مسجد کی چھت پر سولر پینلز اس انداز میں نصب کیے جائیں گے کہ مسجد کی چھت نمازیوں کے لیے قابل استعمال ہوگی۔

واضح رہے کہ مسجد کا اپنا بور ہے لیکن وہ بوقت ضرورت استعمال ہوتا ہے باقی اوقات اسی ٹیوب ویل سے پانی کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔

اس بارے میں ہم آپ مفتیان کرام سے شرعی حکم کے طلب گار ہیں،کہ آیا مسجد کے چھت پر سولر پینل نصب کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جس جگہ کو مسجد کے لئے وقف کر دیا جائے،وہ جگہ زمین سے آسمان تک مسجد کے لئے مختص ہو جاتی ہے،اس جگہ کو مسجد کے علاوہ کسی اور مقصد میں استعمال کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہوتی،لہذا صورتِ مسئولہ میں کالونی والوں کے مشترکہ ٹیوب ویل کے لئے سولر پینل مسجد کی چھت پر لگانا شرعاًجائز نہیں ہوگا۔بلکہ اس کا مناسب حل یہ ہے کہ کسی سے اس کے مکان کی چھت کرایہ پر حاصل کر لی جائے، پھر اس میں سولر سسٹم لگایا جائے۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة ‌إذا ‌بنى ‌رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية."

(کتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز، ج:2، ص:362، ط:رشیدیه)

وفیه أيضًا:

"أما تعريفه فهو في الشرع عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - حبس العين على ملك الواقف والتصدق بالمنفعة على الفقراء أو على وجه من وجوه الخير بمنزلة العواري كذا في الكافي فلا يكون لازما وله أن يرجع ويبيع كذا في المضمرات ولا يلزم إلا بطريقتين إحداهما قضاء القاضي بلزومه والثاني أن يخرج مخرج الوصية فيقول أوصيت بغلة داري فحينئذ يلزم الوقف كذا في النهايةوعندهما حبس العين على حكم ‌ملك ‌الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."

(کتاب الوقف، ج:2، ص:350، ط:رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں