بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی اشیاء کوامام صاحب کا اپنے گھر میں استعمال کرنے کا حکم


سوال

کسی مسجد کے امام صاحب مسجد کی اضافی جاۓنماز یا دری(جو مسجد میں امام صاحب کے لیے ہی مختص ہوں) کو مسجد کی طرف سے ملے ہوئے گھر میں نمازوں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مسجد کے لیے وقف جائے نماز یا دری کو امام صاحب مسجد کی طرف سے ملے ہوئے رہائش کے گھر میں اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتے،اگر چہ وہ جائے نماز یا دری مسجد میں خود امام صاحب کے لیے ہی مختص ہو۔

البتہ اگر وہ جائے نماز یا دری امام صاحب  کی ملکیت میں دی گئی ہو تو وہ اسے اپنے گھر لے جاکر بھی نمازوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

1۔"صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(كتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، ج:4، ص: 445، ط: سعيد)

2۔"اعلم أن أسباب الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب الصيد."

(كتاب الصيد، ج:6، ص:463، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"متولي المسجد لیس له أن یحمل سراج المسجد إلی بیته وله أن یحمله من البیت إلی المسجد، کذا في فتاوی قاضي خان."

(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به وفيه فصلان، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القيم وغيره في مال الوقف عليه، ج:2، ص:462، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں