بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی امانت میں خیانت


سوال

ایک دفعہ ہم محلہ میں مسجد  کی تعمیر کر رہے تھے، اس کے لیے چندہ جمع کیا ذاتی طور پہ خلوص نیت  کے  ساتھ  مسجد کی تعمیر کے لیے،  وہ کوئی(17000) سترہ ہزار تھے۔اور وہ پیسے مجھ سے خرچ  ہوگئے۔اس کے بعد کافی عرصے تک میرے مالی حالات اس قابل نا ہو سکے  کہ میں وہ سترہ  ہزار دے سکوں مسجد  میں۔اب میں وہ پیسے دینا چاہتا ہوں تو اس پہ میری رہنمائی فرمائیں میں اتنے  ہی پیسے دوں یا پھر اس پہ کوئی شرعی حکم ہے؟ میں  اس وجہ سے کافی پریشان ہوں؛ کیوں کہ میں  نے  دوستوں  سے مسجد کی تعمیر کے لیے جمع کیے  تھے جو مجھ سے خرچ  ہوگئے۔ اب  میں  کیسے ادائیگی کر سکتا ہوں اس کی؟ یہ صرف میں اور میرا اللہ جانتا کہ وہ پیسے میں  نے جس مقصد کے لیے جمع کیے تھے اس پہ  لگا نہیں سکا۔ مجھے ایک دفعہ کسی نے کہا تھا کہ مسجد کی تعمیر کے پیسوں میں سے آپ نوٹ بھی نہیں تبدیل کر سکتے جو جیسے دیتا ہے وہی نوٹ دینے پڑتے  ہیں، اگر ایسا ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ نے مسجد کی تعمیر کے لیے جو رقم جمع کی تھی اس کا خود استعمال کرنا ناجائز اور حرام تھا ۔اس عمل کے اوپر  استغفار  کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز لازم ہے کہ اتنی ہی رقم یعنی سترہ  ہزار  روپے دوبارہ  سے اسی مسجد  کی تعمیر پر خرچ کیے  جائیں جس کے  لیے ادا کرنے والوں نے ادا  کیے تھے۔اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید  میں امانت داری کی تاکید فرمائی  ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"فَلْیُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَه وَلْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه۔"(بقرة)

ترجمہ:

”تو جو امین بنایا گیا ا س کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے “۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن أنس رضي الله عنه قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: «‌لا ‌إيمان ‌لمن ‌لا ‌أمانة له ولا دين لمن لا عهد له» . رواه البيهقي في شعب الإيمان"۔

(کتاب الایمان، الفصل الثانی، 1/17، المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:

”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : بہت کم  ایسا ہوتا کہ  نبی کریم ﷺ   ہم سے بیان کرتے اور یہ نہ کہتا ہوں کہ جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں “۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه ، كذا في الشمني .الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن ، وإن فعل شيئا منها ضمن ، كذا في البحر الرائق ".

(کتاب الودیعۃ، الباب الأول في تفسير الإيداع والوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، 4 /338 ط:  رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں