بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی آمدنی سے بچوں کا مدرسہ چلانے اور مسجد کے اوپر والے حصے میں مدرسہ چلانے کا حکم


سوال

1۔ کیا مسجد کی آمدنی سے 300 بچوں کا مدرسہ چلا سکتے ہیں ؟

2۔ سرائے مسجد کے اوپر والے حصے میں مدرسہ چلا سکتے ہیں ؟ اور یہ دوکانیں کسی کی وقف کی نہیں ہیں،بلکہ مسجد کی تعمیر کے وقت مسجد کے نیچےبنائی ہوئی ہے واقف اس کے ساتھ نہیں ہے۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر مدرسہ مسجد کے تابع ہے،او رمسجد ہی کے خرچہ سے مدرسہ قائم کیاگیاہے، اورمسجدومدرسہ کا ذمہ دار  ایک ہی شخص ہے یامسجدومدرسہ  کی ذمہ دار مسجد کی کمیٹی ہی ہے، اور مسجد ہی کی رسید سے سب کیلئے چندہ کیاجاتاہے، اور الگ رسید کے ذریعہ سے الگ الگ چندہ کاانتظام نہیں ہے، اورمدرسہ  کےالگ ذمہ دار نہیں ہیں ، اور چندہ بھی صرف مسجد ہی کے نام سے ہوتاہے، اور اسی سے سب کے اخراجات پورے ہوتے ہیں ، اور اکثر چندہ دہندگان کو اس کا علم بھی ہے ، کہ مسجدکمیٹی  کی جانب سےمسجد  اور مدرسہ کا خرچہ چلتاہے، تو ایسی صورت میں مدرسہ مسجد سے الگ نہیں، سب چیزوں کی آمدنی اور خرچہ مشترک طور پر جائز اور درست ہے ،ہاں البتہ اگر مدرسہ کے ذمہ دار مسجد سے الگ ہیں ، یامدرسہ چلانے کی انتظامیہ  مسجد سے الگ ہے ، تو ایسی صورت میں مسجد کی آمدنی سے مدرسہ چلانا درست نہیں ہے ۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد،(وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."

(رد المحتار علیٰ الدرالمختار،کتاب الوقف،4/ 360ط:سعید)

علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"أما إذا اختلف الواقف أو اتحد الواقف واختلفتت الجہۃ ، بأن بنیٰ مدرسۃ ومسجداً ، وعین لکلٍّ وقفا، وفضل من غلۃ أحدہما ، لایبدل شرط الواقف ، وکذا إذا اختلف الواقف لاالجہۃ ، یتبع شرط الواقف ، وقد علم بہذا التقریر إعمال الغلتین إحیاء للوقف ورعایۃ شرط الواقف ، ہذا ہو الحاصل من الفتاویٰ، وقد علم أنہ لایجوز لمتولی الشیخونیۃ بالقاہرۃ صرف أحد الوقفین للآخر."

 (البحرالرائق،5/ 234،ط: دارالكتب الاسلامي)

2 ۔مسجد ذکر وتلاوت ،ادائیگی نماز اور اعتکاف کےلیے   وقف ہوتی ہے ،اس کی کسی منزل میں مستقلاًمدرسہ قائم کرنا جائز نہیں ،مدرسہ کے لیے علیحدہ عمارت حاصل کرنے  کی  فکر کی جائے ،ہاں بوقت ضرورت مسجد کے  تابع ہوکر مکتب یا مدرسہ کی تعلیم دی جا سکتی ہے ،بشرطیکہ اس سے مسجد کی حرمت  اورتقدس پامال نہ ہو  ۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."

‌‌(مطلب في وقف المنقول قصدا،ص:366،ج:4،ط:دار الفکر بیروت )

وفيه ايضاّ:

"(قوله: ومن علم الأطفال إلخ ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق ولم ينقل عن أحد القول به ويمكن أنه بناء على بالإصرار عليه يفسق  أفاده الشارح قلت بل في التاترخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة  وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ  لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام جنبوا مسجدكم صبيانكم ومجانينكم".

(ص:428،ج:6،ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں