بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی آمدنی سے مدرسہ چلانا


سوال

1۔گھر کے پاس کی مسجد کے قریب 29 دکانیں ہیں، جو رینٹ پر ہیں،  رینٹ کی انکم سے مسجد کا نظام چلتا ہے ، اچھی بیلنس رہتی ہے لیکن کچھ مہینوں سے مسجد کے اوپر والے حصے میں مدرسہ شروع کیا ہے امام صاحب نے،  اور مسجد کے ٹرسٹی  نے مدرسہ چلانے  کے لیے امام صاحب کو 60 ہزار روپے دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ مسجد کی آمدنی  سے 300 بچوں کا مدرسہ چلا سکتے ہیں ؟

2۔دوسرا سوال یہ  ہے کہ سرائے مسجد کے اوپر والے حصے میں مدرسہ چلا سکتے  ہیں ؟ 

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں مسجد کی آمدنی سے مدرسہ چلانا جائز نہیں ہے ،اس لیے کہ جن  حضرات نے   جس مقصد کے لیے اپنی دکانوں  کو یا پھر زمین کو  مسجد  کے لیے وقف کیا ہے   اس کو    اسی مصرف میں خرچ کرنا لازم ہے کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرنے  کی گنجائش  نہیں ہے ، ہاں اگر چندہ لیتے وقت مسجد کے ساتھ مدرسہ کی بھی وضاحت کردی جائے، یا مسجد کی رسید میں مدرسہ کانام بھی شامل کیا جائے تو پھر مدرسہ میں بھی خرچ کرنا جائز ہوگا۔

2 ۔مسجد ذکر وتلاوت ،ادائیگی نماز اور اعتکاف کےلیے   وقف ہوتی ہے ،اس کی کسی منزل میں مستقلاًمدرسہ قائم کرنا جائز نہیں ،مدرسہ کے لیے علیحدہ عمارت حاصل کرنے  کی  فکر کی جائے ،ہاں بوقت ضرورت مسجد کے  تابع ہوکر مکتب یا مدرسہ قائم کیا جاسکتا ہے ،بشرطیکہ اس سے مسجد کی حرمت پامال نہ ہو ،بچوں کو حفظ وناظرہ کی تعلیم دی جائے ۔

حاشیہ  ابن عابدین میں ہے :

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."

‌‌[مطلب في وقف المنقول قصدا،ص:366،ج:4،ط:دار الفکر بیروت )

حاشیہ ابن عابدین میں ہے :

"(قوله: ومن علم الأطفال إلخ ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق ولم ينقل عن أحد القول به ويمكن أنه بناء على بالإصرار عليه يفسق  أفاده الشارح قلت بل في التاترخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة  وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ  لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام جنبوا مسجدكم صبيانكم ومجانينكم".

(ص:428،ج:6،ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144307100901

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں