بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جُمادى الأولى 1446ھ 04 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد بیت الخلاء کراۓ میں دینے کا حکم


سوال

ہمارے محلے کی جامع مسجد کے ساتھ متصل ہی مسجد کا بیت الخلاء ہے ،جس کا راستہ باہر سے ہے ،تو مسجد کی انتظامیہ نے ایک سویپر رکھاہوا ہے جو بیت الخلاء کی  صفائی وغیرہ کرتا ہے اور نماز کے اوقات  کے علاوہ آنے والےلوگوں  سے دس/ دس روپے   وصول کرتا ہے اور انتظامیہ اس سویپر کو ماہانہ  تنخواہ نہیں دیتی، بلکہ اس سویپر سے ہر مہینے  پانچ ہزار روپے وصول کرتی ہے۔

کیاانتظامیہ کاسویپر سے  پانچ ہزار ماہانہ  وصول کرنا درست ہے ؟ کیا سوئپر کا نماز کے وقتوں کے علاوہ دس روپے وصول کرنا درست ہے ؟ اور انتظامیہ وہ پیسے مسجد کے دیگر کاموں میں صرف کرے گی کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد  کی وقف کی جگہ پر بیت الخلاء بنے ہوےہوں،اور ان کو کراۓ میں دینے کی صورت میں مسجد کو مالی فائدہ ہو  اور کسی قسم کا نقصان نہ ہو،تو  ان بیت الخلاء کو   مارکیٹ ویلیو کے مطابق  کراۓ میں دینا اور اس کی آمدن کو مسجد اور مسجد کے مصالح  پر خرچ کرنا جائز ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجد انتظامیہ کا بیت الخلاء کراۓ پر دینا اور کرایہ وصول کرنا، نیز سويپر کا آنے والوں سے 10/10 روپے وصول کرنا اور مسجد  انتظامیہ کا کراۓ کو مسجد کے مصالح میں خرچ کرنا یہ تمام کے تمام امور جائز ہیں ان میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولاتجوز إجارة الوقف إلا بأجر المثل، كذا في محيط السرخسي".

(كتاب الوقف،الباب الخامس في ولاية الوقف وتصرف القيم في الأوقاف419/2، رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"و إنما یملك الإجارة المتولي أو القاضي."

(كتاب الوقف،تصرفات الناظر في الوقف،255/5،ط:دار الكتاب الإسلامي)

تبیین الحقائق میں ہے:

"(وصح أخذ ‌أجرة ‌الحمام) لما روي أنه - عليه الصلاة والسلام - «دخل الحمام في الجحفة» ولتعارف الناس، وقال - عليه الصلاة والسلام - «وما رآه المؤمنون حسنا فهو عند الله حسن»."

(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،123/5،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"إذا وقف داره على الفقراء فالقيم يؤاجرها ويبدأ من غلتها بعمارتها كما مر،فما فضل  يصرف الى الفقراء،وليس للقيم أي يسكن فيها احداّ بغير اجر"

(كتاب الوقف،الفصل السابع في تصرف القيم في الأوقاف،نوع منه يرجع إلى العقود509/5،ط:دار احياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخرالمصالح، هذا إذا لم يكن معينا فإن كان الوقف معينا على شيء يصرف إليه بعد عمارة البناء."

(‌‌كتاب الوقف،مطلب في وقف المنقول قصدا،367/4، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں