بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان اور خدمت کے لیے رکھے گئے مؤذن کا صفائی سے انکار کرنا


سوال

ایک شخص کو بطورِ مؤذن مسجد کی خدمت کے لیے تنخواہ پر رکھا ہے، اب وہ شخص کہتا ہے کہ میں صرف اذان دوں گا، صفائی وغیرہ نہیں کروں گا، آیا اس  شخص کا عمل اپنی ڈیوٹی سے انحراف کے مترادف ہے یا نہیں؟ اور یہ شخص مدرسہ کے چھوٹے بچوں سے مسجد کے کام لیتا ہے مثلاً : دریاں جھاڑنا، صفائی کرنا، وضو خانہ دھونا، وغیرہ ، تو اس شخص کا یہ عمل اس کی اجرت پر حرمت کا سبب ہے یا حلت کا؟ جب کہ مسجد کی دریوں میں مٹی کے جمنے کی وجہ سے جو نمازی الرجی کا شکار ہیں، تو وہ تکلیف میں پڑ جاتے ہیں، کیا مؤذن کا یہ عمل ایذائے مسلم کے مترادف ہے یا نہیں؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلع فرمائیں۔

نوٹ : سائل مسجد کی کمیٹی کا حصہ ہے، اور مسجد کی زمین بھی اسی نے وقف کی تھی،اور اس مؤذن کو رکھتے ہوئے اس سے یہ بات طے ہوئی تھی کہ وہ مسجد میں اذان بھی دے گا اور صفائی خدمت وغیرہ بھی کرے گا، لیکن اب وہ خدمت سے انکار کرتا ہے، اور  چھوٹے بچوں سے صفائی کرواتا ہے، جن سے صفائی درست طریقے سے نہیں ہوتی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ مؤذن کا تقرر کرتے ہوئے یہ طے ہوا تھا کہ وہ  نمازوں کے لیے اذان کے ساتھ ساتھ مسجد کی صفائی اور خدمت کے دیگر امور بھی انجام دے گا تو ایسی صورت میں اس کا صفائی سے انکار کردینا جائز نہیں ہے، اور   ڈیوٹی  کی بعض ذمہ داری سے انحراف شمار ہوگا، نیز اس کا  مدرسہ کے  چھوٹے نابالغ بچوں سے صفائی کروانا  بھی درست نہیں ہے، اگر وہ صفائی نہیں کر رہا ہے تو اس  کے لیے پوری تنخواہ لینا  جائز نہیں ، تاہم وہ اذان دینے  کی اجرت  وصول کرنے کا حق دار ہوگا۔

"درر الحكام شرح مجلة الأحكام"میں ہے:

"(المادة 425) : ‌الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له ‌أن ‌يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة.

ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل.

أما ‌الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة، فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة.

(انظر المادة 470) مثال ذلك كما لو آجر إنسان نفسه من آخر ليخدمه سنة على أجر معين فخدمه ستة أشهر ثم ترك خدمته وسافر إلى بلاد أخرى ثم عاد بعد تمام السنة وطلب من مخدومه أجر ستة الأشهر التي خدمه فيها؛ فله ذلك وليس لمخدومه أن يمنعه منها بحجة أنه لم يقض المدة التي استأجره ليخدمه فيها.

(البهجة) . وإنما لا يشترط عمل ‌الأجير الخاص بالفعل كما ورد في هذه المادة؛ لأنه لما كانت منافع ‌الأجير مدة الإجارة مستحقة للمستأجر وتلك المنافع قد تهيئت والأجرة مقابل المنافع، فالمستأجر إذا قصر في استعمال ‌الأجير ولم يكن للأجير مانع حسي عن العمل كمرض ومطر فللأجير أخذ الأجرة ولو لم يعمل (الزيلعي)."

(الكتاب الثاني : الإجارة، ‌‌الباب الأول في بيان الضوابط العمومية للإجارة، ج:1، ص:458، ط:دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں