بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی تعمیر کروانے والے کا اپنا نام مسجد کی دیوار پر لکھوانا


سوال

ایک بندے نےمسجد کے لیے ایک زمین دی،اس میں مسجد تعمیر کروائی گئی،جس میں اس کی رقم کے علاوہ دوسروں کی رقم بھی ہے، اب وہ بندہ مسجد کی دیوار پر اپنا نام بطورِ خادم لکھوا دیتا ہے۔ اس کا یہ فعل شرعاکیسا ہے؟

جواب

مسجد کے لیے زمین دے کر اور اس کی تعمیرکرواکراپنا نام لکھوانا اگر چہ شرعاً جائز ہے ،تاہم مسجد تعمیر کرواکر نام لکھوانے میں اگر ریاکاری  اور دکھلاوا مقصود ہو تو  ثواب سے محرومی یقینی ہے۔ اس لئے نام لکھنے سے احتراز ضروری ہے تا کہ عند اللہ اجر  و ثواب بر قرار رہے۔

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"والمراد بوجه الله ذات الله وابتغاء وجه الله في العمل هو الإخلاص وهو أن تكون نيته في ذلك طلب مرضاة الله تعالى من دون رياء وسمعة حتى قال ابن الجوزي ‌من ‌كتب ‌اسمه على المسجد الذي يبنيه كان بعيدا من الإخلاص (فإن قلت) فعلى هذا لا يحصل الوعد المخصوص لمن يبنيه بالأجرة لعدم الإخلاص (قلت) الظاهر هذا ولكنه يؤجر في الجملة...."

(كتاب الصلاة، باب من بنى مسجدا، 4/ 213، ط: دار الفكر)

"رد المحتار على الدر المختار "میں ہے:

"(ولا بأس بنقشه خلا محرابه) فإنه يكره لأنه يلهي المصلي. ويكره التكلف بدقائق النقوش ونحوها خصوصا في جدار القبلة قاله الحلبي. وفي حظر المجتبى: وقيل يكره في المحراب دون السقف والمؤخر انتهى. وظاهره أن المراد بالمحراب جدار القبلة فليحفظ."

(كتاب الصلاة، باب الاستخلاف، فروع أفضل المساجد، ج:1، ص:658، ط: سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"کسی فرد یا جماعت کا اپنے لئے دعاء کے لئے درخواست کر نا منع نہیں (۲)۔ احادیث لکھ کر دعاء کی درخواست کرنا کہ اللہ ہم کو بھی عمل کی توفیق دے، یہ بھی منع نہیں ۔ نام چاہے آخرمیں لکھا جائے یا پہلے ، مگر اس طرح نام لکھنے سے اس لکھنے والے فردیا جماعت کی بھی تشہیر ہوتی ہے، جس کی بنا پر لوگ تعریف کرتے ہیں، ایسانہ ہو کہ کام کا مقصود تعریف ہی تک محدود رہ جائے ، رضائے خداوندی اور اشاعتِ احادیث و احکام مقصود نہ رہے، یااس کے ساتھ نام آوری بھی مقصودیت کے درجہ میں آجائے ، جیسا کہ کثرت سے اشتہاری لوگوں کا حال دیکھنےمیں آتا ہے،اللہ پاک اس مصیبت سے محفوظ رکھے۔"

(باب آداب المسجد، ج:15، ص:266، ط: ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں