بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے اسپیکر سے قل خوانی کے اعلان اور دیگر اعلانات کا حکم، پیسے لے کر اعلان کرنے کا حکم


سوال

قل  خوانی کا اعلان مسجد کے لاؤڈ اسپیکر میں کرنا کیسا ہے؟ اور کیا دوسرے اعلانات مسجد کے لاؤڈ اسپیکر میں کیے جاسکتے ہیں ؟بعض علاقوں میں مسجد والے کچھ رقم لے کر پھر اعلان کرتے ہیں، اس کا کیا حکم ؟

جواب

  مسجد کے اسپیکر سے قل خوانی کا اعلان کرنا جائز نہیں ہے،  مسجد کے اسپیکر سے صرف مسجد کے متعلق چیزوں (جیسے اذان اور جنازہ وغیرہ  ) کا  اعلان جائز ہے،نیز بچے کی گمشدگی کا اعلان بھی انسانی جان کی اہمیت کے پیشِ نظر جائز ہے،  لیکن اس کے عوض رقم لینے کی اجازت نہیں ہے۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال: مسجد کے مائیک پر جو اعلان کیا جاتا ہے اس کے لیے جو ایک روپیہ لیا جاتا ہے وہ اعلان کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: مسجد میں مائیک پر اعلان کرنے کا روپیہ لینا درست نہیں فقط۔"

(کتاب الوقف، باب احکام المسجد، الفصل الثالث عشر فی مکبر الصوت،  ج:15، ص:38، زیرِ نگرانی : دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

"سوال: قل خوانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: قل خوانی کا موجودہ طریق شرعاً ثابت نہیں ہے۔  فقط واللہ اعلم۔"

(باب الحظر والاباحۃ ، ج: 10، ص: 359، ط: جمعیۃ پبلیکیشنز)

الدر المختار میں ہے:

"و لايجوز أخذ الأجرة منه و لا أن يجعل شيئًا منه مستغلًا و لا سكنى، بزازية".

وفي الشامية:

"(قوله: و لا أن يجعل إلخ) هذا ابتداء عبارة البزازية، و المراد بالمستغل أن يؤجر منه شيء لأجل عمارته و بالسكنى محلها و عبارة البزازية على ما في البحر، و لا مسكنًا و قد رد في الفتح ما بحثه في الخلاصة من أنه لو احتاج المسجد إلى نفقة تؤجر قطعة منه بقدر ما ينفق عليه، بأنه غير صحيح".

(‌‌كتاب الوقف، 4/ 358، ط: سعید)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"و لو وقف على دهن السراج للمسجد لا يجوز وضعه جميع الليل بل بقدر حاجة المصلين ويجوز إلى ثلث الليل أو نصفه إذا احتيج إليه للصلاة فيه، كذا في السراج الوهاج. و لايجوز أن يترك فيه كل الليل إلا في موضع جرت العادة فيه بذلك كمسجد بيت المقدس و مسجد النبي صلى الله عليه وسلم و المسجد الحرام، أو شرط الواقف تركه فيه كل الليل كما جرت العادة به في زماننا، كذا في البحر الرائق".

(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد وما يتعلق به ،الفصل الأول فيما يصير به مسجدا وفي أحكامه وأحكام ما فيه2/ 459، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں