بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے صحن سے 6 انچ اونچے برآمدہ میں امام کا تنہا کھڑا ہونا


سوال

اگر  امام بر آمدہ ( جو صحن سے 6 انچ اونچا ہے) میں اکیلا کھڑا ہوا اور باقی مقتدی صحن میں کھڑے ہوں تو اس سے نماز میں کراہت آجاتی ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ اگر امام بلا ضرورت  ایک ذراع  (شرعی گز = 18 انچ) کے برابر یا اس سے زیادہ اونچائی پر کھڑا ہو،  جس سے امام اور مقتدیوں میں  فرق معلوم ہو اور  امام کے ساتھ  اوپر کچھ مقتدی بھی نہ ہوں تو پھر نماز مکروہ ہو گی، اور  اگر اتنی اونچی جگہ پر امام کو کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئے تو کچھ مقتدی بھی امام کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، اس صورت میں  نماز  مکروہ نہیں ہوگی۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ   مسجد کا بر آمدہ جو صحن سے 6 انچ اونچا ہے، اس میں اگر امام تنہا کھڑے ہوکر نماز پڑھائے اور باقی مقتدی صحن میں کھڑے ہوں  تو کسی قسم کی کراہت کے بغیر نماز اور جماعت درست ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وانفراد الإمام على الدكان) للنهي، وقدر الارتفاع بذراع، ولا بأس بما دونه، وقيل ما يقع به الامتياز وهو الأوجه ذكره الكمال وغيره (وكره عكسه) في الأصح وهذا كله (عند عدم العذر) كجمعة وعيد، فلو قاموا على الرفوف والإمام على الأرض أو في المحراب لضيق المكان لم يكره لو كان معه بعض القوم في الأصح."

(کتاب الطهارۃ، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، 1/ 646، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويكره قيام الإمام وحده في الطاق وهو المحراب ولا يكره سجوده فيه إذا كان قائما خارج المحراب هكذا في التبيين وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن يقوم في الطاق. كذا في الفتاوى البرهانية ويكره أن يكون الإمام وحده على الدكان وكذا القلب في ظاهر الرواية. كذا في الهداية وإن كان بعض القوم معه فالأصح أنه لا يكره. كذا في محيط السرخسي ثم قدر الارتفاع قامة ولا بأس بما دونها ذكره الطحطاوي وقيل: إنه مقدر بما يقع به الامتياز، وقيل: بمقدار الذراع اعتبارا بالسترة وعليه الاعتماد. كذا في التبيين وفي غاية البيان هو الصحيح. كذا في البحر الرائق."

(کتاب الطهارۃ، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره، 1/ 108، ط: رشیدیة)

 البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وانفراد الإمام على الدكان وعكسه) أما الأول فلحديث الحاكم مرفوعا «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن يقوم الإمام فوق ويبقى الناس خلفه» وعللوه بأنه تشبه بأهل الكتاب فإنهم يتخذون لإمامهم دكانا أطلقه فشمل ما إذا كان الدكان قدر قامة الرجل أو دون ذلك وهو ظاهر الرواية وصححه في البدائع لإطلاق النهي وقيده الطحاوي بقدر القامة ونفى الكراهة فيما دونه وقال قاضي خان في شرح الجامع الصغير إنه مقدر بذراع اعتبارا بالسترة وعليه الاعتماد وفي غاية البيان وهو الصحيح وفي فتح القدير وهو المختار لكن قال الأوجه الإطلاق وهو ما يقع به الامتياز لأن الموجب وهو شبه الازدراء يتحقق فيه غير مقتصر على قدر الذراع اهـ."

(کتاب الصلاۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، تغميض عينيه في الصلاة،  2/  28، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602100274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں