بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے صحن سے گزر کر وضو خانے جانے کا حکم


سوال

اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ نمازی وضو کرنے کیلئے مسجد کے صحن سے گزر کر وضو خانے جاتے ہیں،   جب کہ مسئلہ یہ ہے کہ مسجد کو عام گزرگاہ بنانا جائز نہیں،  تو کیا اس طرح مسجد کے صحن سے گزر کر مسجد کی دوسری طرف وضو خانے میں جانا بھی جائز نہیں یا جائز ہے؟  ہمارے ہاں مسجد بڑے رقبے پر مشتمل ہے، چاروں  طرف چمن اور بیچ میں مسجد ہے ، مسجد کے بیچ میں برآمدہ اس طور پر ہے کہ ایک طرف کے دروازے سے داخل ہو کر مسجد کے برآمد ے سے گزر کر وضو خانے جانا پڑتا ہے،  مثلا  جامعہ کے دارالاِقامہ کی طرف والے چھوٹے گیٹ سے کوئی طالب علم اندر آئے اور برآمدے  سے ہوتے ہوئے وضو خانے کی طرف جائے تو اس کا حکم کیا ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد كو راه گزر كے طور پر استعمال كرنا مكروهِ  تحریمی ہے، البتہ صورتِ مسئولہ میں وضو خانہ میں وضو  کے لیے   جانے  کی صورت میں  مسجد کو استعمال کرنا مسجد کو راہ گزر بنانے کے حکم میں نہیں ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"رجل ‌يمر ‌في ‌المسجد ويتخذ طريقا إن كان بغير عذر لا يجوز وبعذر يجوز ثم إذا جاز يصلي في كل يوم مرة لا في كل مرة."

(كتاب الصلاة، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره، ج:1، ص:110، ط:دار الفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخلاصة رجل ‌يمر ‌في ‌المسجد ويتخذه طريقا إن كان لغير عذر لا يجوز وبعذر يجوز ثم إذا جاز يصلي كل يوم تحية المسجد مرة اهـ.

وفي القنية يعتاد المرور في الجامع يأثم ويفسق ولو دخل المسجد للمرور فلما توسطه ندم قيل يخرج من باب غير الذي قصده وقيل يصلي ثم يتخير في الخروج وقيل إن كان محدثا يخرج من حيث دخل إعداما لما جنى."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الوطء فوق المسجد والبول والتغوط، ج:2، ص:38، ط:دار الکتاب  الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌و) ‌كره ‌تحريما (‌الوطء ‌فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقا بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده.... (قوله واتخاذه طريقا) في التعبير بالاتخاذ إيماء إلى أنه لا يفسق بمرة أو مرتين، ولذا عبر في القنية بالاعتياد نهر. وفي القنية: دخل المسجد فلما توسطه ندم، قيل يخرج من باب غير الذي قصده، وقيل يصلي ثم يتخير في الخروج، وقيل إن كان محدثا يخرج من حيث دخل إعداما لما جنى اهـ.

(قوله بغير عذر) فلو بعذر جاز، ويصلي كل يوم تحية المسجد مرة بحر على الخلاصة: أي إذا تكرر دخوله تكفيه التحية مرة (قوله بفسقه) يخرج عنه بنية الاعتكاف وإن لم يمكث ط عن الشرنبلالي."

(‌‌کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،  ج:1، ص:656،  ط: سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال:ایک مدرسہ مسجد سے ملحق ہے ، اس کا راستہ مسجد کے اندر سے ہے یعنی مسجد ہی کے دروازے سے ، تو یہ مدرسہ کا راستہ مسجد سے الگ ہونا چاہیے یا نہیں ؟

الجواب حامداً ومصلیاً:

اگر مدرسہ مسجد سے ہی متعلق ہے اور اس کا دروازہ دوسری  جانب نہیں کیا جاسکتا تو مجبوراً مسجد میں آنے جانے کی اجازت ہوگی، ایسی حالت میں مسجد میں مرور کی شامی میں گنجائش دی ہے، اگر دوسری جانب کو راستہ بن سکتا ہے تو دوسری جانب کو راستہ بنادیا جائے یہی احوط ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اَعلم۔"

(کتاب الوقف،باب آداب المسجد، فصل مسجد میں مستحب اور مکروہ کاموں کا کرنا، ج:15، ص:216، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144507101636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں