بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے پیسوں سے مسجد میں نقش و نگار کرنا


سوال

 مسجد کے پیسوں سے مسجد میں نقش ونگار کرنا کیسا ہے؟ اس طرح رنگ وغیرہ کرنا کیسا ہے مسجد کے پیسوں سے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مسجد کے اجتماعی چندہ کی رقم سے مسجد کے نقش و نگار میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے،البتہ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے اپنی ذاتی رقم اس مقصد میں خرچ کرے تو جائز ہے،البتہ مسجد کے اجتماعی چندہ کی رقم سے مسجد میں رنگ کروانا جائز ہے،بشرط یہ کہ مسجد میں  رنگ کروانے کی ضرورت ہو۔

فتح القدیر میں ہے:

(ولا بأس أن ينقش المسجد بالجص والساج وماء الذهب ) وقوله لا بأس يشير إلى أنه لا يؤجر عليه لكنه لا يأثم به، وقيل هو قربة .........وهذا إذا فعل من مال نفسه، أما المتولي فيفعل من مال الوقف ما يرجع إلى إحكام البناء دون ما يرجع إلى النقش حتى لو فعل يضمن."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،فصل ويكره استقبال القبلة بالفرج في الخلاء،ج1، ص421،ط: دار الفکر بیروت)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"الجواب:مسئلہ یہ ہے کہ اپنے مال حلال سے ایسے تکلفات کرنا درست ہے ،اور مال وقف سے درست نہیں ،مگر جب کہ آمدنی وقف  سے بہت سا روپیہ جمع ہوگیا اور حاجات ضروریہ تعمیر وغیرہ سے زائد ہو تو درست ہے ۔"

(ج13،ص454،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101719

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں