ایک مسجد اور مدرسہ زیر تعمیر ہیں اور رجسٹرڈ ہیں، بالکل ابتدائی مرحلہ میں ہیں، اہل خیر حضرات سے تعاون کے لیے ملاقاتیں، مزدوروں کا دیکھ بھال، میٹریل فراہم کرنا اور اس کے علاوہ تمام تر ذمہ داری خود متولی کررہے ہیں، چوں کہ متولی کا وقتِ کثیر کے علاوہ موٹر سائیکل اور پٹرول وغیرہ کا خرچہ ہوتے ہیں، کمیٹی کے مشاورت سے متولی کے لیے کچھ مشاہرہ مقرر کیا ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ:
1:کیا متولی کے لیے مشاہرہ لینا جائز ہے؟
2:اگر جائز نہ ہو تو متولی پہلے لے چکا ہے اس کاکیا حکم ہے؟
اور یہ واضح رہے کہ متولی کو جو مشاہرہ دیاجارہاہے وہ اس کی خدمت کے مقابلے میں کم ہے یعنی اس کی خدمت کے لیے اگر باقاعدہ کسی اور بندے کا بندوبست کیاجائے تو اس عوض پر وہ راضی نہیں ہوگا۔
تنقیح:متولی جو پہلے لے چکاہے ان میں کچھ کمیٹی کے تقرری سے پہلے خود سے مشاہر ہ لیا ہے جب کمیٹی کا وجود نہیں تھا اور کچھ کمیٹی کے تقرر ی کے بعد لیاہے۔
1-2:واضح رہے کہ مسجد مدرسہ کی فی سبیل اللہ خدمت کرنی چاہیے،تاہم اگر کوئی مسجد ومدرسہ کی خدمت میں مصروف ہے تو مسجد ومدرسہ کے پیسوں کو خود استعمال نہیں کر سکتا، البتہ اگر مسجد ومدرسہ کے انتظامیہ کے ذریعے اس کام کے لیے اجرت مقرر کرالے تو معاہدہ کے مطابق کام انجام دے کر وہ اجرت لینا جائز ہوگا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً متولی مسجد ومدرسہ کی کسی متعین خدمت میں مصروف ہواورمتولی کی خدمت کے بدلے کمیٹی والے کوئی مشاہرہ طے کریں متولی کے لیے اس کا لینا جائز ہے،لیکن جو مشاہرہ خود سے لیا ہے کمیٹی نہ ہونے کی بناء پر اس کا لوٹانا واجب ہے، کیونکہ مسجد و مدرسہ کی رقم وقف کی رقم ہے، اسےاپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وللمتولي أن يستأجر من يخدم المسجد يكنسه ونحو ذلك بأجر مثله أو زيادة يتغابن فيها فإن كان أكثر فالإجارة له وعليه الدفع من مال نفسه ويضمن لو دفع من مال الوقف".
(كتاب الوقف،الباب الحادي عشرفي المسجدوما يتعلق به،ج:2،ص:461،ط:رشیدیة)
وفیہ ایضاً:
"سئل الفقيه أبو القاسم عن قيم مسجد جعله القاضي قيمًا على غلاتها و جعل له شيئًا معلومًا يأخذه كل سنة حل له الأخذ إن كان مقدار أجر مثله، كذا في المحيط".
(كتاب الوقف،الباب الحادي عشرفي المسجدوما يتعلق به،ج:2،ص:461،ط:رشيدية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144311101647
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن