بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف شدہ قرآنِ کریم اور دینی کتاب میں شرعی نقطہ نظر


سوال

وقف شده(مسجد كےلیے )كتاب يا قران كريم كو كوئی بازار ميں بيچ رہاہو، تو آيا اس كو خريد نے كى إجازت ہے يا نهيں؟

جواب

واضح رہے کہ وقف جب صحیح ہوجائے   تو موقوفہ چیز واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ رب العزت کی ملکیت  میں داخل ہو جاتی ہے، اور وقف  کے مکمل ہونےکے بعد   اس کی خرید  وفروخت کرنا شرعا جائز نہیں،   اسی طرح  واقف نے موقوفہ چیز   جس مقصد کے لیے   وقف کی ہواس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے،نیز وقف اگر چہ صرف غیر منقولی اشیاء کا ہوتا ہے، لیکن تبعاً  منقولی اشیاء کا وقف بھی جائز ہے اور مسجد کے لیے قرآن کریم وقف کرنا اسی قبیل میں سے ہے کہ مسجد کے تابع بن کر وقف کرنا درست ہے، لہذا صورت مسئو لہ میں وقف کرنے والے نے قرآنِ کریم یا کوئی دینی کتاب  تلاوت کرنے اور پڑھنے کی غرض سے مسجد کے لیےوقف کی ہے،تو ایسی صورت میں موقوفہ کتاب و موقوفہ قرآن کریم کو  بازار میں بیچنا جائزنہیں ہے، اور وہ بیچنے والے کی ملکیت بھی نہیں ہے(اگر چہ بیچنے والا واقف خود ہو)، لہذا اس سے خریدنا بھی جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وكذا يجوز وقف كل ما كان تبعا له من المنقول كما لو وقف ارضاً مع العبيد والثيران و الآلات للحرث."

‌(الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع، ج: 2، ص: 360، ط: دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما".

(کتاب الوقف، ج: 2، ص: 350، ط: دار الفكر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."

  (كتاب الوقف، ج: 4، ص: 433، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

'' (فاذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)

قوله: ' لا يملك  'أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه .''

(کتاب الوقف ،ج 4 ، ص 352، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505102088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں