بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے چندہ سے مسجد ہی میں مکتب قائم کرنا اورمکتب کے مدرس کو تنخواہ دینا


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارےکہ مسجد میں جو چندے کے پیسے ہوتے ہیں تو کیا ان پیسوں سے مسجد کے قریب کسی صاحب کے گھر میں یا مسجد ہی میں بچوں کے لئے مکتب قائم کر کے استاذ کو بطورِ تنخواہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مسجد کے  لیے دیے گئے چندے کا مصرف مسجد کی ضروریات اور مسجد کے مصالح ہیں، لہذا مسجد کے چندے سے مکتب کے استاذ کو تنخواہ دینا جائز نہیں ہے، البتہ  اگر چندہ دہندگان سے  پیشگی اجازت لے لی جائے  کہ یہ تعاون مسجد اور مکتب دونوں کے لیے ہے تو پھر یہ رقم مکتب کی ضروریات (استاذ کی تنخواہ وغیرہ) میں بھی  لگائی جاسکتی ہے۔

نیز صرف مسجد کے لیے وقف کی گئی پوری عمارت یا اس کے کسی بھی حصہ کو مستقل مکتب بنانا جائز نہیں ہے، البتہ    اگر اس کو مسجد ہی باقی رکھتے ہوئے اس میں بچوں اور چھوٹی بچیوں  کو قرآن اور دین کی بنیادی تعلیم دی جائے اور اس میں مسجد کے تقدس و آداب کا مکمل خیال رکھا جائے تو یہ جائز ہے۔

فتاوٰی دار العلوم زکریا  میں ہے:

”جو رقم مسجد کے لیے جمع کی جاتی ہے اس میں مدرسہ کے مدرسین کی تنخواہیں دینا درست نہیں ہے،ہاں جن حضرات سے چندہ وصول کیا جاتا ہے ان کے پاس ایک تحریر بھیج دیں کہ آپ کا چندہ مسجد کے علاوہ مدرسہ اور اس کے مدرسین پر بھی خرچ کیا جائے گا، اس پر دستخط کردیں یا زبانی ان سے بات کر لی جائے یا مسجد میں اعلان کر دیا جائے، پھر اس رقم کو مسجد کے علاوہ مدرسہ میں خرچ کرسکتے ہیں“

(کتاب الطہارۃ: ج:1، ص: 572، ط:زمزم پبلشرز)

البحر الرائق میں ہے:

"وحاصله أن ‌شرط ‌كونه ‌مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفا لمصالح المسجد فإنه يجوز إذ لا ملك فيه لأحد بل هو من تتميم مصالح المسجد فهو كسرداب مسجد بيت المقدس هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجدا لأنه منالمصالح ،فإن قلت: لو جعل مسجدا ثم أراد أن يبني فوقه بيتا للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجدا وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه وفي جامع الفتوى إذا قال عنيت ذلك فإنه لا يصدق. اهـ. فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره."

(كتاب الوقف، ج:5، ص:271، ط:دار الكتاب الإسلامي) 

وفیه  أیضاً:

"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] وما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأنّ المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن، ولايتعين مكان مخصوص لأحد".

( کتاب الصلاۃ،باب الحدث في الصلاةز:ج:2، ص:36، ط: دارالکتاب الإسلامی)

الدر المختار  مع رد المحتار میں ہے:

"[فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية.

(قوله: ولا أن يجعل إلخ) هذا ابتداء عبارة البزازية .... قلت: وبهذا علم أيضا حرمة إحداث ‌الخلوات في المساجد كالتي في رواق المسجد الأموي، ولا سيما ما يترتب على ذلك من تقذير المسجد بسبب الطبخ والغسل ونحوه ورأيت تأليفا مستقلا في المنع من ذلك."

(كتاب الوقف، ج:4، ص:358، ط:سعيد) 

وفیه أیضا:

"قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى. اهـ."

( کتاب الوقف، مطلب في نقل انقاض المسجد ونحوہ: ج:4،ص:361 ط: سعید)

وفیه أیضا:

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا."

(کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین: ج: 4،ص: 445 ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102207

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں