کیا مسجد کے پیسے سے کورٹ کچہری میں کیس لڑا جا سکتا ہے جبکہ پیسے بھی چندے کے ہوں؟
صورت مسئولہ میں اگر مسجد کے حق کے لیے یا مسجد کی جگہ پر ناجائز قبضہ چھڑانے کےلئے کیس لڑا جارہا ہے تو پھر وہ صدقات اور عطیات جو لوگوں نے بغیر کسی تعیین کے مسجد کے ہر قسم کے اخراجات اور امور کے لیے دیے ہیں تو صدقات اور عطیات کی رقم مسجد کا کیس لڑنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔نیز وہ صدقات اور عطیات جو کسی خاص جہت (مذکورہ کیس کے علاوہ کسی جہت)پر خرچ کرنے کے لیے دیے گئے ہیں تو ان رقوم کو مسجد کا کیس لڑنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.(وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك.
قوله: (بأن بنى رجلان مسجدين) الظاهر أن هذا من اختلافهما معا أما اختلاف الواقف ففيما إذا وقف رجلان وقفين على مسجد (قوله: لا يجوز له ذلك) أي الصرف المذكور، لكن نقل في البحر بعد هذا عن الولوالجية مسجد له أوقاف مختلفة لا بأس للقيم أن يخلط غلتها كلها، وإن خرب حانوت منها فلا بأس بعمارته من غلة حانوت آخر؛ لأن الكل للمسجد ولو كان مختلفا لأن المعنى يجمعهما اهـ ومثله في البزازية تأمل. [تنبيه] قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى."
(کتاب الوقف قبل مطلب في وقف المنقول تبعا للعقار ج نمبر ۴ ص نمبر۳۶۰ ،ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."
(فتاوی شامی ، کتاب الوقف ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۳۳، ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403101766
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن