کیا کوئی انسان مسجد کے نام کا لیا ہوا چندہ، اپنی ضرورت کے لیے استعمال کر سکتا ہے؟ اور یہ ارادہ ہو بعد میں آہستہ آہستہ کر کے جمع کرا دوں گا، اور اگر کسی نے چندہ اپنی ضرورت کے لیے استعمال کر لیا ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ جن کاموں کے لیے چندہ کیا جائےتو وہ رقم ان ہی کاموں میں صرف کی جائے ،دوسرے کاموں میں چندہ دہندہ گان کی اجازت کے بغیرخرچ کرنا درست نہیں ۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں مسجدکے چندہ کو چندہ دینے والوں کی اجازت کے بغیر اپنی ضروریات میں استعمال کرکے بعد میں مسجد میں آہستہ آہستہ جمع کرادینا شرعاً جائز نہیں ہوگا، اگر مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے استعمال کرلیا ہو، تو اس پر توبہ واستغفار کرکے اتنی رقم مسجد میں جمع کرانا ضروری ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے :
"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."
(کتاب الزکاۃ، ج :2، ص :و269، ط: سعید)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :
"سئل أبو نصر عن رجل جمع مال الناس علي أان ينفقه في بناء المسجد فربما يقع في يده من تلك الدراهم فأنفقها في حوائجه ثم يرد بدلها في نفقة المسجد من ماله أيسع له ذلك ؟
قال: لا يسعه أن يستعمل من ذلك في حاجة نفسه فان عرف مالكه رد عليه وسأله تجديد الإذن فيه وإن لم يعرف إستأذن الحاكم فيما أستعمل وضمن."
(کتاب الوقف، ج:8، ص:177، ط: مكتبة زکریا دیوبند)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100325
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن