بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے بیسمنٹ میں مدرسہ اور امام مسجد کا گھر بنانا


سوال

 ایک شخص نے مسجد کے لیے جگہ وقف کی، اور پھر جب مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو اس نے کہا کہ میری نیت یہ ہے کہ مسجد کے بیسمنٹ میں مدرسہ اور امام مسجد کا گھر بھی ہوگا، اور ابھی اسی طرح بیسمنٹ میں مدرسہ اور گھر بھی بنادیاہے، اور اوپر والے حصے میں مسجد تعمیر ہوچکی ہے۔ کیا ایسا کرنا از روئے شرع جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں  جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص  کی جائے وہ  ہمیشہ کے لیے "تحت الثریٰ"  (زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان تک سب مسجد کے حکم میں ہو تی ہے، اس میں کوئی اور چیز تعمیر نہیں کی جاسکتی، البتہ اگر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے سے نیچے والے حصے میں کوئی ایسی چیز بنائی جو مسجد کے مصالح کے لیے ہو تو اس کی گنجائش ہے اور اگر وہ مسجد کے مصالح میں داخل نہ ہو تو  اس کے بنانے سے اوپر والی جگہ شرعی مسجد نہیں بنے گی، اور جب مسجد کی  تعمیر مکمل  ہوجائے  تو  پھر اس کے اوپر یانیچے کوئی اور  چیز بنانا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقف کی نیت  مسجد کے لیے جگہ  وقف کرنے سے پہلے ہی تھی کہ  نیچے امام مسجد کا مکمل گھر، اور مستقل مدرسہ ہوگا، اور اس کے اوپر مسجد ہوگی تو یہ جائز تو ہے، لیکن اس صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد نہیں کہلائے گی، البتہ اگر صرف نیچے امام مسجد کا حجرہ (کمرہ) ہو، اور وہ مسجد کی ملکیت ہو  تو چوں کہ وہ مسجد کے مصالح میں داخل ہے اس لیے اور اوپر والی جگہ شرعی مسجد شمار ہوگی۔

اور اگر زمین مسجد ہی کے لیے  وقف کردی ہو اور وقف کرنے کے بعد  تعمیر کے وقت یہ نیت کی کہ نیچے امام مسجد کا مکمل گھر اور مستقل مدرسہ ہوگا تو واقف کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے،  اس لیے کہ جو جگہ حد بندی کے لیے مسجد کے لیے وقف کردی ہو وہاں کسی اور چیز کی تعمیر کرنا جائز نہیں ہوتا۔ تاہم اس صورت میں  اگر مسجد کی تعمیر سے پہلے  واقف نے   تہہ خانہ میں امام مسجد کے لیے کمرہ بنادیا تو چوں کہ امام مسجد کا کمرہ (حجرہ) مسجد کے مصالح میں داخل ہے، اس لیے اس صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد شمار ہوگی، اور مسجد میں جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص ہے اس کے محاذات میں نیچے بیسمنٹ میں امام کے گھر میں بیت الخلا بنانا جائز نہیں ہوگا، اور نہ ہی امام کے لیے اس میں بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز ہوگا، نیز امام کے اہلِ خانہ کے لیے ایام کے دوران اس حصے میں آنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔

لیکن مدرسہ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور  اس کی جہت الگ ہے،  لہٰذا مسجد کے تہہ خانہ میں مستقل مدرسہ  بنانا درست نہیں ہے،  البتہ اس کو مسجد ہی باقی رکھتے ہوئے اس میں بچوں کو قرآن اور دین کی بنیادی تعلیم دی جائے اور اس میں مسجد کے تقدس و آداب کا مکمل خیال رکھا جائے تو یہ جائز ہے۔

"البحر الرائق " میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله وتعالى: ﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ﴾ [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام، فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح، فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره، هل له ذلك؟ قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجداً، وبنى غرفةً وهو في يده، فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس، ثم جاء بعد ذلك يبني، لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق". اهـ.(5/ 271،  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

"فتاوی شامی" میں ہے:٤

"(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس، (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

 (قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض؛ لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح، وشرط في المصباح: أن يكون ضيقاً، نهر، (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية".(4/ 357، کتاب الوقف، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"لو بنى فوقه بيتاً للإمام لا يضر؛ لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع، ولو قال: عنيت ذلك لم يصدق، تتارخانية".(4/ 358، کتاب الوقف، فرع، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200511

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں