بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے بیرونی حصہ میں سگریٹ پینا


سوال

فنائے مسجد مثلاً جوتیوں والی جگہ میں سگریٹ پی سکتا ہے؟

جواب

سائل کا سوال اگر معتکف سے متعلق ہے تو واضح رہے کہ معتکف کا مسجد سے بغیر شرعی ضرورت کے نکلنا جائز نہیں، بلکہ اعتکاف میں معتکف کے لیے شرعی مسجد کی حدود میں رہنا ضروری ہوتا ہے، طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر اس کے احاطہ مسجد سے باہر آنے سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔جبکہ جوتیاں اتارنے کی جگہ مسجد کی شرعی حدود سے باہر ہوتی ہے، اور سگریٹ   پینا چوں کہ شرعی یا طبعی ضرورت نہیں ہے، اس لیے مسجد سے باہر(جوتیوں وغیرہ کی جگہ پر) سگریٹ پینے  کے لیے رکنے سے معتکف کا اعتکاف   فاسد ہوجائے گا؛ لہذا  معتکف پر لازم ہے کہ اس سے اجتناب کرے۔

نیز سگریٹ پینا دوسروں کی ایذا  کا سبب اور  غیر صلحاء کا شعار ہونے کی وجہ سے بذاتِ خود  ایک ناپسندیدہ  اور قابلِ ترک عمل ہے، جب کہ اس کی عادت کی وجہ سے معتکف اپنا اعتکاف خطرے میں ڈال دے تو اس صورت میں اس سے اجتناب کرنے کا اور بھی زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔

نیز معتکف کے علاوہ کسی عام شخص  کا شرعی مسجد کی جگہ کے قریب کھڑے ہو کر سگریٹ پینا یا سگریٹ پی کر مسجد میں آنا  (جبکہ  اس کی وجہ سے منہ میں بدبو ہو) مکروہِ تحریمی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول سمته اهـ.

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه.

 (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، (رد المحتار)، کتاب الأشربة،6/ 460، ط: سعید)

وفيه أيضا:

"قلت: وألف في حله أيضاً سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل على ذلك فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره بل ثبت له منافع فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي".

(کتاب الأشربة،459/6،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وحرم عليه) ... (الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول و غائط و غسل لو احتلم و لايمكنه الاغتسال في المسجد، كذا في النهر. (أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذناً وباب المنارة خارج المسجد."

 (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ،2/  444،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101202

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں