بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے اندر بد فعلی کے ارتکاب کی سزا


سوال

مسجد کے اندر ایک لڑکا دوسرے لڑکے کے ساتھ غلط کام کرتا ہے، اس کی سزا کیا ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ  شرعی حدود اور سزا ئیں جاری کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کے مسلمان حکمران یا اس کے نائب جج وغیرہ کو ہوتا ہے، ہر ایک کو قانون ہاتھ میں لے کر از  خود  حددود اور سزائیں جاری کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ 

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی لڑکا دوسرے لڑکے کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے اس کا گواہ ہے یا وہ اقرار کرتے ہیں، تو وہ بہت ہی قبیح فعل اور سنگین گناہ  ہے ،مسجد کے اندر  اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے،  اگر یہ گناہ اقرار یا گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوجائے تو اس کی سزاحاکمِ وقت کی صوب دید پر  ہے، وہ جو سزا  مناسب سمجھے  جاری کرے، اس فعل کے ارتکاب کرنے والے  فاعل اور مفعول دونوں پر لازم ہے کہ ندامت کےساتھ گڑگڑا کر خوب توبہ و استغفار کریں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا."

(فصل في شرائط جواز إقامة الحدود: ج:7، ص:57، ط: دار الکتب العلمیة)

الدر المختار میں ہے:

"(أو) بوطء (دبر) وقالا: إن فعل في الأجانب حد. وإن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر. قال في الدرر بنحو الإحراق بالنار وهدم الجدار والتنكيس من محل مرتفع باتباع الأحجار. وفي الحاوي والجلد أصح وفي الفتح يعزر ويسجن حتى يموت أو يتوب؛ ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة."

وفي رد المحتار: "(قوله: بنحو الإحراق إلخ) متعلق بقوله: يعزر. وعبارة الدرر: فعند أبي حنيفة يعزر بأمثال هذه الأمور. واعترضه في النهر بأن الذي ذكره غيره تقييد قتله بما إذا اعتاد ذلك. قال في الزيادات: والرأي إلى الإمام فيما إذا اعتاد ذلك، إن شاء قتله، وإن شاء ضربه وحبسه. ثم نقل عبارة الفتح المذكورة في الشرح، وكذا اعترضه في الشرنبلالية بكلام الفتح. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة: ولايحد عند الإمام إلا إذا تكرر؛ فيقتل على المفتى به. اهـ. قال البيري: والظاهر أنه يقتل في المرة الثانية لصدق التكرار عليه. اهـ".

(کتاب الحدود، مطلب في حكم اللواطة: ج:4، ص: 27، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں