بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے عمومی فنڈ سے زمین خرید کر دکانیں بنانا


سوال

مسجد فنڈ کی اس رقم سےجو امام و مؤذن اور تعمیراتی کام کے لیے جمع کی گئی   ہو اور امام ومؤذن کی تنخواہ دینےکے بعد اور تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد اس بچی ہوئی رقم سے مسجد کے لیے زمین خریدنا اس ارادے  سے  کہ اس میں دکانیں بناکر کرایہ  پر دی جائیں گی اور اس سے جو آمدنی ہوگی اس کو مسجد کی ضروریات میں صرف کیا جائے گا، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

جواب

جو رقم مسجد کی عمومی ضروریات کے  لیے ہو،  اس میں سے ضروریات کی تکمیل کے بعد جو رقم بچ جائے اس سے زمین خرید کر دکانیں بنانا جائز ہے، بشرطیکہ مسجد کو اس سے فائدہ ہو،  اور  جو رقم کسی خاص مدمیں آئی ہو تو اس کو اسی مد میں استعمال کرنا ضروری ہے، اگر اس سے بچ جائے تو دینے والوں کی اجازت سے اس رقم سے مسجد کے  لیے زمین خریدنا  اور دکانیں بنانا جائز ہوگا؛ لہذا مسجد کی تعمیر ات ،امام اور مؤذن کی تنخواہوں کی مد میں لی جانے والی رقم سے دکانیں خرید کر کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے ،اگر  رقم ضرورت سے زائد ہو تو دینے والوں کی اجازت  سے کسی اور  مصرف  میں استعمال کرسکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره، فتأمل."

(حاشية ابن عابدين: كتاب الزكاة (2/ 269)،ط. سعيد)

وفیه أیضًا:

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر (4/ 445)،ط. سعيد، كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں