بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 رمضان 1446ھ 27 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے پیسے سے ادھار لے کر بعد میں واپس کرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص مسجد کے پیسے ادھار لے لے اور تھوڑے تھوڑے کر کے وہ ادا کر دے تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ اور اگر وہ شخص قرض ادا کرنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو جائے تو کیا اس پر معاف ہوجائیں گے؟

جواب

مسجد کا فنڈ (پیسے) کمیٹی یا متولی و خزانچی کے پاس امانت ہوتا ہے، اس لیے مسجد کا متولی مسجد  کی رقم صرف مسجد کے اخراجات اور مصالح میں لگانے کا پابند ہے، مسجد کا موقوفہ مال کسی کو بطورِ قرض دینے یا کمیٹی کے افراد کے لیے خود لینے کی اجازت نہیں ہے، البتہ مسجد کے امام، مؤذن، خادم وغیرہ جو مسجد کے مصالح اورخدمت میں مصروف ہوں ان کو ضرورت کی وجہ سے پیشگی اجرت بطور قرض دینا جائز ہے، بشرطیکہ رقم اتنی خطیر نہ ہو جس کی وصولیابی تنخواہ سے مشکل یا ناممکن ہو۔ 

اگر کسی نے مسجد کے فنڈ سے ادھار لے لیا اور ادا کرنے سے پہلے اس کا انتقال ہوگیا تو اس کے ذمہ مسجد کا قرض باقی رہ جائے گا جو اس کے ترکہ میں سے ادا کرنا لازم ہوگا۔

الفتاوى الهندية (4/ 338):

’’ الوديعة لاتودع ولاتعار ولاتؤاجر ولاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق. ‘‘

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’مسجد کا پیسہ متولی کے پاس امانت ہوتا ہے، اس میں اور کسی قسم کا تصرف کرنا روزگار وغیرہ میں لگانا جائز نہیں۔ مسجد کی رقم متولی کے پاس امانت ہے، کسی کو بیوپار کے لیے دینے کا اس کو حق نہیں‘‘۔

(باب احکام المساجد، ج:۱۵، ص:۸۰)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200246

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں