ہمارے علاقے میں قائم پرانی جامع مسجد تھی، جس کی عمارت کی صورت ِحال یہ تھی کہ مسجد کے اندر کے ہال کے بعد باہر دائیں بائیں جانب اور آگے کی طرف مسجد کے برآمدے تھے، آگے کے برآمدے سے مزید آگے مسجد کے لیے بنائی گئی دکانوں کی چھت تھی، جو مسجد کے برآمدوں سے تقریبا ایک ڈیڑھ فٹ نیچیے تھی، ان دکانوں کی چھت کو مسجد کا صحن تصور کیا جاتا تھا اور اس کے اوپر نماز بھی پڑھی جاتی تھی، ان دکانوں کی تعمیر مسجد کی تعمیر کے ساتھ کی گئی تھی، جب دکانیں نہ چلیں تو ان دکانوں کو گزشتہ کئی سالوں سے مسجد کے امام صاحب کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور امام صاحب اپنی فیملی سمیت تاحال اس میں رہائش پزیر تھے، اب پرانی مسجد کو شہید کر کے دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔
اب پوچھنا یہ تھا کہ مسجد کی دکانوں کی جگہ پر، جس کو اب امام صاحب کی رہائش گاہ کےطور پر استعمال کیا جا رہا تھا، اب دوبارہ وہاں امام صاحب کی رہائش گاہ تعمیر ہو سکتی ہے؟ اس حال میں کہ ہم اس رہائش گاہ کی چھت کو پہلے کی طرح مسجد کا صحن تصور کریں، اس کے اوپر بوقتِ ضروت نماز پڑھ سکیں،جب کہ اول دن سے دکانوں ( بعد کی رہائش گاہ) کی تعمیر ضروریاتِ مسجد (آمدن مصالح وغیرہ) کی غرض کے لیے کی تھی۔
صورتِ مسئولہ میں جب ابتداءًیعنی مسجد کی پہلی تعمیرکے ساتھ ساتھ مسجد کے نیچے کی دکانیں مسجد کی مصالح کے لیے بنائی گئی تھیں، اس کے بعدپھرامام ِمسجد کی رہائش گاہ اسی جگہ بنائی گئی، تو اب دوبارہ تعمیر کے وقت ان دکانوں کی جگہ پر امام کی رہائش گاہ بنانادرست ہے اور رہائش گاہ کی چھت کو سنن ونوافل میں استعمال کرنادرست ہے۔
البحر الرائق شرح کنزالدائق میں ہے:
"وحاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.
فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق. اهـ."
(كتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد،ج:5، ص: 271، ط: دارالکتاب الاسلامی مصر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.
(قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح. وشرط في المصباح أن يكون ضيقاً، نهر (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفاً عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية."
(كتاب الوقف، فرع أراد أهل المحلة نقض المسجد وبناءه أحكم من الأول، ج:4، ص:357، ، ط:دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603101613
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن