بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف کردہ اپنے گھر کو بیچنے کا حکم


سوال

عرض خدمت ہے کہ میری زوجہ کا تقریبا 15 سال قبل رضائے الہی سے انتقال ہوگیا تھا اور میرے چار بیٹے ہیں جو کہ بالغ ہیں۔ بچوں کی نافرمانی کی وجہ سے غصے میں آ کر جامع مسجد خالدیہ گلستان کالونی لیاری کراچی گیا اور پیش امام صاحب سے ملا اور کہا کہ میں  اپنا گھر مسجد کو وقف کرنا چاہتا ہوں، جس پر پیش امام صاحب نے کہا کہ یہ شرعی طریقہ نہیں، ہم یہ گھر نہیں لے سکتے،  جس پر میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ یہ گھر لینا نہیں چاہتے  تو میں اپنا گھر ایدھی یا کسی فلاحی ادارے کو دے دوں گا،  جس پر پیش امام صاحب نے کہا ٹھیک ہے آپ یہ گھر مسجد کو دے دو۔ اور یہ معاہدہ طے پایا کہ جب تک میں زندہ رہوں گا گھر کا تمام کرایہ میں وصول کروں گا۔  اور مسجد والوں نے گراؤنڈ فلور کا ایک حصہ وضو خانے کے طور پر استعمال  کرنا شروع کر دیا جس کا ماہانہ کرایہ مسجد کمیٹی مجھے دیتی  ہے  اور مورخہ 07/09/2013 کو خالدیہ مسجد ٹرسٹ کو اپنا گھر  پلاٹ نمبر  2457واقع عثمان غنی اسٹریٹ،  گلستان کالونی لیاری ٹاؤن کراچی تحریری طور پر لکھ کر مسجد کو وقف کر دیا ۔ اب میرے حالات بہت خراب ہوچکے ہیں اور شدید بیمار بھی ہوں اور کافی حد تک مقروض ہو چکا ہوں۔  میرا اس مکان کے علاوہ کراچی اور آبائی گاؤں  اٹک میں  کوئی جائیداد نہیں ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ گھر کو فروخت کرکے اپنی زندگی میں قرض اتاروں  اور اپنا بہتر علاج معالجہ کروا سکوں ۔اور جو رقم مجھے جائیداد فروخت کی صورت میں ملے گی ۔اس کا ایک حصہ  جو تقریبا 15 سے 20 لاکھ روپے بنتا ہے وہ  میں مسجد کو عطیہ کر دوں گا.  لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں .

جواب

واضح رہے کہ وقف جب درست ہوجائے  تو موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے  واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا  اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا؛

جیساکہ فتح القدیرمیں ہے:

"وعندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى؛ فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، ولا يباع ولا يوهب ولا يورث". 

(کتاب الوقف،6/ 203، ط، دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وعندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، ولا يباع ولا يوهب ولا يورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية".

(کتاب الوقف،2/ 350، ط: رشیدیة)

  اسی طرح  واقف نے وہ جگہ  جس   جہت اور مقصد کے لیے   وقف کی ہواس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے، مثلاً اگر کوئی جگہ   مسجد کے لیے وقف کی  تو وہاں پر مسجد  بنانا   ضروری ہے، اور اگر مسجد کے مصالح اور ضروریات کے لیے وقف کی ہوتو وہ جگہ مسجد کے مصالح اور ضروریات میں استعمال کرنا ضروری ہے۔

جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به".  

( کتاب الوقف، 4/433، ط: سعید)

       فتاوی عالمگیری میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية".

(كتاب الوقف، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ،2/ 362، ط: رشیدیة)

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ کو امام صاحب نے مذکورہ جذباتی اقدام اٹھانے سے منع بھی کیا تھا پھر بھی  آپ نے اپنا گھر مسجد کے لیے وقف کردیا ہے تو یہ گھر کو وقف کرنا اور کرایہ کو اپنی زندگی تک اپنے لیے مختص کرنا دونوں ہی شرعاً درست اور نافذ العمل ہوچکے ہیں، اور وہ گھر آپ کی ملکیت سے نکل چکا ہے ، اس لیے اب شرعاً آپ کے لیے کسی بھی صورت اور کسی بھی نیت سے اس گھر کو بیچنا جائز نہیں ہے، اور مسجد کی منتظمہ کمیٹی کو بھی شرعاً یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ آپ پر رحم کھا کر یہ گھر آپ کو واپس کردیں، آپ   نے گھر کا کرایہ اسستعمال کرنے کا جو حق اپنے لیے گھر وقف کرتے وقت رکھا تھا اس کی رو سے اب صرف اپنی زندگی میں اسی کرائے کے استعمال کی گنجائش ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں