بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے موقوفہ زمین پر باتھ روم اور گھر بنانا


سوال

کسی نے  ایک کنال زمین مسجد  کے لیے وقف کر دی،  اب انتظامیہ نے کچھ حصے پر گھر اورلٹرین  بنا لیا،  باقی حصے پر مسجد،  یہ جائز ہے یانہیں؟

جواب

اگر کسی جگہ کو مسجد کے  لیے وقف کر دیا جائے اور  اس جگہ  کی حدود متعین کر کے اس کو  نماز پڑھنے کے  لیے متعین بھی  کر دیا جائے  تو وہ جگہ قیامت تک کے  لیے مسجد بن جاتی ہے، اس جگہ کسی دوسری چیز کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی؛  لہذا سوال میں ذکر کردہ مسئلہ میں اگر  ایسا ہی ہو  اور باقاعدہ نماز پڑھنے کے  لیے وہ جگہ متعین کر دی گئی تھی تو انتظامیہ کا یہ فعل  جائز نہیں۔

 اور اگر کسی جگہ کو مسجد و مصالحِ مسجد کے  لیے وقف کیا  گیا ہو، ابھی تک باقاعدہ کسی متعین حصہ کو نماز کے  لیے متعین نہ کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں اس زمین کے  کچھ حصہ پر باتھ روم اور امام صاحب کے گھر بنانے کی اجازت ہوتی ہے، اس  لیے کہ یہ مصالحِ مسجد میں سے ہیں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (15/ 9):

"لو بنى بيتًا على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجدًا؛ لأنه من المصالح."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355):

"(و يزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدًا)."

اگر کوئی شخص کسی جگہ کو مسجد کے  لیے وقف کرتا ہے  تو اس جگہ میں مسجد اور مصالحِ مسجد دونوں کی تعمیرات کرنے کی اجازت ہوتی ہے جب تک اس مکمل جگہ کو حدودِ مسجد میں داخل کر کے نماز پڑھنے کے  لیے متعین نہ کر لیا ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں