میرے محلے میں ایک مسجد تعمیر کروائی گئی ہے اور وہ زمین چار بھائیوں کی مشترکہ ملکیت ہے جس میں تین بھائی زندہ جبکہ ایک بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اور مرحوم بھائی کے دو بیٹے ہیں جن کی عمر 40 سال ہے تینوں بھائیوں نے مشترکہ زمین سے مسجد کی تعمیر کیلئے جگہ وقف کی جبکہ مرحوم بھائی کے بیٹے جس کی عمر 40 سال ہے، نے وقف شدہ زمین پر اعتراض کیا کہ میں یہ جگہ مسجد کی تعمیر کیلئے نہیں دینا چاہتا اور اب بھی وہ معترض ہے لیکن مسجد تعمیر کروائی گئی کیا اب اس مسجد کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ تین بھائیوں کا اپنا حصہ مسجد کے لیے وقف کرنا جائز اور درست تھا، البتہ مرحوم بھائی کا حصہ ان کے ورثاء (بیٹوں) کی اجازت کے بغیر مسجد کے لیے وقف کرنا غصب کے حکم میں ہے، البتہ اب جب اس جگہ مسجد تعمیر ہوگئی ہے یہ جگہ مسجد شرعی کے حکم میں ہے اور اس میں نماز پڑھنا بھی جائز اور درست ہے، البتہ مذکورہ بھائیوں کو چاہیے کہ مرحوم بیٹے کی اولاد کو ان کا حصہ (متبادل یا اس کی رقم) دے کر راضی کیا جائے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويفرز)فلا يجوز وقف مشاع يقسم خلافا للثاني (قوله: ويفرز) أي بالقسمة وهذا الشرط وإن كان مفرعا على اشتراط القبض؛ لأن القسمة من تمامه إلا أنه نص عليه إيضاحا وأبو يوسف لما لم يشترط التسليم أجاز وقف المشاع، والخلاف فيما يقبل القسمة، أما ما لا يقبلها كالحمام والبئر والرحى فيجوز اتفاقا إلا في المسجد والمقبرة لأن بقاء الشركة يمنع الخلوص لله تعالى نهر وفتح."
(کتاب الوقف، ج:4، ص:352، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"واختلف الترجيح، والأخذ بقول الثاني أحوط وأسهل بحر وفي الدرر وصدر الشريعة وبه يفتى وأقره المصنف (قوله: واختلف الترجيح) مع التصريح في كل منهما بأن الفتوى عليه لكن في الفتح أن قول أبي يوسف أوجه عند المحققين."
(کتاب الوقف،ج:4،ص:352،ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي المنتقى عن أبي يوسف لو غصب أرضا وبنى فيها حوانيت ومسجدا أو حماما فلا بأس بالصلاة في ذلك المسجد، أما الحمام فلا يدخل ولا تستأجر الحوانيت وقال هشام أنا أكره الصلاة فيه حتى يطيب أربابه."
(کتاب الغصب، ج:8، ص:131، ط:دار الکتاب الاسلامی)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"مشترک جائیدادوں میں سے جس کا دل چاہے اپنا حصہ فروخت کردے یا وقف کردے، کسی شریک کو اعتراض کا حق نہیں،وقف تام اور لازم ہوجانے کے بعد اس کو توڑا نہیں جاسکتا۔"
(کتاب الوقف،ج:14،ص:245،ط:مکتبہ فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100658
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن