بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے خزانہ کی رقم اپنی ذات پر خرچ کرنا


سوال

کیا مسجدانتظامیہ کا کوئی عہدہ دار مسجد کے خزانے کو اپنی ذات پریا کسی مہمان کی مہمان نوازی پر خرچ کرسکتا ہے اور اگر کر لے اور باقی انتظامیہ کو علم نہ ہو تو علم ہونے پر دونوں کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب

مسجد کے خزانچی کے پاس مسجد کے چندہ کی   رقم امانت ہوتی ہے، اور امانت میں بلا اجازتِ مالک تصرف کرنا جائز نہیں ، اجتماعی مال  میں تصرف کرکے اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا یا کسی مہمان کی مہمان نوازی کرنا  ناجائز اور حرام ہے، اس سے بچنا ضروری ہے، ورنہ اس کو اس منصب پر باقی رکھنا جائز نہیں ہو گا۔

باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ }." [الانفال: آیت:58]
' بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ '
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ }." [الحج:38]
' کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا، اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ '

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( خَیْرُکُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ)) قَالَ عِمْرَانُ: (( لَا أَدْرِيْ أَذَکَرَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وسلم بَعْدُ قَرْنَیْنِ أَؤْ ثَـلَاثَة)) قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وسلم : (( إِنَّ بَعْدَکُمْ قَوْمًا یَخُوْنُوْنَ وَلَا یُؤْتَمَنُوْنَ، وَیَشْهَدُوْنَ وَلَا یُسْتَشْهَدُوْنَ، وَیَنْذِرُوْنَ وَلَا یَفُوْنَ وَیَظْهر فِیْهِمُ السَّمَنُ".))

' بے شک تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خیانت کریں گے اور وہ امانت کی پاس داری کرنے والے نہیں ہوں گے۔ اور وہ گواہی دیں گے حال آں کہ  ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ اور نذریں مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے۔ اور ان میں موٹاپا عام ہوگا۔'

( أخرجه البخاري في کتاب الشهادات، باب: لا یشهد علی شهادة جور إذاأُشهد، رقم: 2651)

 اس لیے اگر  مسجد کی رقم کسی نے  استعمال کرلی ہو  تو استغفار کرے،اور اتنی ہی رقم اس فنڈ میں واپس جمع کرا دے،  اور آئندہ کے لیے مکمل احتیاط کرے، ہاں اگر چندہ دینے والے نے مہمان نوازی کی اجازت دی ہو تو ایسی صورت میں اتنی رقم سے مہمان نوازی کی اجازت ہوگی۔

فتح القدیر میں ہے:

"والأصل فیه أن الشرط إذا کان مقیداً والعمل به ممکناً وجب مراعاته والمخالفة فیه توجب الضمان".

(العنایة مع فتح القدیر، کتاب الودیعة، ج: ۸/ ص:۵۱۹)

فتاوی شامی میں ہے :

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصًا."

(کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین،445/4، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں