بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے امام کو زکوٰۃ دینا


سوال

1۔کیا اپنی مسجدکے امام کو یاکسی اور مسجد کے امام کو زکوٰۃ کے  پیسے دینا جائز ہے؟ 

2۔اور اگر جائز ہے تو کیا اس کو بتاکر دینا ضروری ہے، یا بغیر بتائے دینا بھی جائز ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ جس شخص کی ملکیت میں ضرورت سے زائد نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کے بقدر  نقد،مال تجارت، یا دیگر ضرورت سے زائد اتنا   سامان  نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت  کے بقدر ہو،تو اس شخص کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر مسجد کے امام کے پاس اس قدر  مال نہ ہو تو ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

2۔زکوٰۃ کی ادئیگی کے لیے زکوٰۃ کی نیت کرنا شرط ہے، زکوٰۃ کا ذکر کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بغیر بتائے یا ہدیہ کہہ کر بھی زکوٰۃ دینا جائز ہے، لیکن بطور تنخواہ زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، تنخواہ کے علاوہ اضافی امداد کے طور پر زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

‌"باب ‌المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."

(کتاب الزکاۃ،ج:2، ص:339، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما شرط أدائها فنية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب هكذا في الكنز."

(كتاب الزكاة، ج:1، ص:170، دارالفكر)

ردالمحتار ميں ہے:

"(نوى الزكاة إلا أنه سماه قرضا جاز) في الأصح ‌لأن ‌العبرة ‌للقلب لا للسان."

(مسائل شتی، ج:6، ص:733، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں