بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے علاوہ کسی اور مقام پر جماعت کرانے کی صورت میں اذان کا حکم


سوال

کئی تاجر لوگ   جرمنی گئے ہیں ،وہاں ٹیکسٹائل کی  ایگزیبیشن  لگتی ہے، کیا ان کے لیے  اذان دینا ضروری ہے؟بغیر اسپیکران پر اذان  بظاہر ممنوع نہیں ہے، اگر  علاقے میں  کہیں بھی اذان نہیں ہوئی ہو تو کیا حکم ہے؟ میری معلومات کے مطابق  تو بظاہر بغیراسپیکر  ان کو اذان دینی چاہیےلیکن اگر علاقے میں کہیں بھی  اذان ہوچکی ہو    تو پھر ضروری  نہیں، کیا  ایساہی ہے؟

ان  تاجروں کے لیے جو   جرمنی میں ہیں  اذان دینے  کا کیا حکم ہے ؟جب کہ وہاں پاکستان کی طرح  عموماً اذان نہیں ہوتی ، اگر ہوتی ہے  تو وہ غالباً مائیک پر نہیں ہوتی ہوگی؟ 

براہ کرم  اس بارے میں  تفصیل سے  شرعی راہ نمائی فرمادیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ پنج وقتیہ فرض نمازوں کی جماعت کے لیے اذان دینا سنت مؤکدہ ہے جو واجب کے قریب ہے  اور اس پر امت کا  تعامل  چلاآرہاہے،لہٰذا جماعت کے لیے اذان  کہنا چاہیے اس کو ترک نہیں کرنا چاہیے ،ہاں البتہ  اگر محلے کی مسجد میں اذان ہوچکی ہو تو اس صورت میں مسجد کے علاوہ کسی  اور مقام پر اگر چند لوگ جماعت سے اپنی نماز پڑھیں تو ان کے لیے اذان واقامت ضروری نہیں ہے، لیکن پھر بھی افضل طریقہ یہ ہے کہ  وہاں  بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کروائی جائے۔

  صورتِ مسئولہ میں  سائل نے جرمنی  میں   ٹیکسٹائل کی  ایگزیبیشن  کے مقام پر جماعت  کے لیے اذان  کے ضروری یا غیر ضروری ہونے کے متعلق  سوال کیا ہے  جب کہ  جرمنی  کی صورت حال اس طرح ہے کہ وہاں   کے شہروں اور محلوں میں  عموماً پاکستان  کی طرح  مساجد  موجود نہیں   ہیں تو اس کے متعلق  حکم یہ ہے کہ  اگر اس مقام پر  محلے میں مسجد نہ ہو  اور وہاں اذان   نہ  دی جاتی ہو تو اس صورت میں  ٹیکسٹائل کی  ایگزیبیشن    کے مقام پر  جماعت کے لیے اذان  دینا ضروری ہے،البتہ اگر اس مقام پر مسجد موجود ہواور  یہ معلوم ہوجائے کہ  اس مسجد میں  اذان ہورہی ہے چاہے اسپیکر پرہو یا بغیر اسپیکر پر تو اس صورت میں وہی محلے کی   اذان  واقامت   دیگر مقامات میں  جماعت  کی نماز کے لیے کافی ہے،البتہ افضل طریقہ پھر بھی  یہی  ہے کہ  وہاں  بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کروائی جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وهو ‌سنة ‌للرجال ‌في ‌مكان ‌عال (مؤكدة) هي كالواجب في لحوق الإثم (للفرائض) الخمس (في وقتها ولو قضاء) لأنه سنة للصلاة."

(ج:1، ص: 384، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلايكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه"....(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا."

(ج:1، ص: 395، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں